اک تصویر جو وائرل نہیں ہو پائی ۔ محمد خان داؤد

700

اک تصویر جو وائرل نہیں ہو پائی

تحریر: محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

توریت ان الفاظوں سے شروع ہوتی ہے کہ
”یہ کیسی خوبی ہے کہ پوری دنیا حاصل کر لی جائے پر اپنی روح گم کر دی جائے “
وہ اتنی چھوٹی اور معصوم ہے وہ توریت کے ان الفاظوں کو نہیں سمجھ پائے گی، ابھی تو اسے بہت آگے بڑھنا تھا بابا کا دامن تھامے دنیا میں اپنا مقام بنانا تھا اس کے ہاتھوں میں دنیا کا دامن نہیں آسکا اس سے پہلے اس کی روح جیسا بابا گم کر دیا گیا، اب وہ گذشتہ بارہ سالوں سے دنیا کا دامن چھوڑ کر اس بابا کا دامن تلاش رہی ہے جو بابا اسے آخری بار شال کے سرکاری اسپتال میں اس وعدے پر چھوڑ گیا تھا کہ
”میری شہزادی! آرام سے رہو جلد لوٹ آؤں گا!“
اور اس جلد لوٹ آنے کو بارہ سردیاں، بارہ گرمیاں، بارہ بہاریں، بارہ بارشیں، بارہ ژالہ باریاں اور کئی عیدیں گزر چکی ہیں پر وہ نہیں لوٹا!
اس کے زخمی ہاتھوں سے دنیا کا دامن چھوٹا، بابا کا دامن چھوٹا اور اب اس کا دامن تار تار ہے
اور اس تار تار دامن میں اس چھوٹی بچی کا ہاتھ ہے جس کا نام مہلب ہے
پر اس کی عمر ہی کتنی ہے جو اپنے دامن سے مہلب کو سنبھالے کبھی شال کی گلیوں میں احتجاج کرتی ہے کبھی کراچی کی شہراؤں پر نظر آتی ہے اور کبھی بھوک ہڑتالی کیمپو ں پر بیٹھ جا تی ہے اور کبھی درد کا نوحہ بیان کرتے نظر آتے ہے،
ماؤں کے لیے مثل مشہور ہے کہ ”ماواں ٹھنڈیاں چھاواں“
پر بابا کے لیے کیا مثل ہو سکتی ہے؟
اردو لغت میں ”مامتا“ کا لفظ تو ماؤں کے لیے درج ہے
پر باباؤں کے لیے کیا لفظ درج ہے؟
کچھ بھی نہیں
اگر مائیں ٹھنڈا سایہ ہے
تو بابا تو وجود کی آنکھیں ہوتے ہیں
اور سمی گذشتہ تیرہ سالوں سے اپنی گم شدہ آنکھیں تلاش رہی ہے
اور وہ گذشتہ تیرہ سالوں سے اپنی آنکھوں کے سوا جی رہی ہے
وہ آنکھیں بس اک وجود کی نہیں وہ آنکھیں پو رے خاندان کی ہیں
وہ گم شدہ آنکھیں ماں کی ہیں
وہ گم شدہ آنکھیں اس بیوی کی ہیں جو ریاست سے سوال کر چکی ہے کہ
”میں سہاگن ہوں یا بیوہ؟!“
وہ گم شدہ آنکھیں معصوم بیٹیوں کی ہیں
وہ گم شدہ آنکھیں اداس بیٹے کی ہیں
وہ گم شدہ آنکھیں بہنوں کی ہیں
وہ اس لمحے کو کیسے بھولے جس لمحے بابا واپس آنے کا کہہ گیا اور نہیں لوٹا
ایسی ہی اداس ماتم کرتی بیٹیوں کی ترجمانی بائیبل میں بھی موجود ہے جب بائیبل مسافر بیٹیوں کی راہ میں بھٹکتی رُلتی سفر کرتی بیٹیوں کو دیکھتی ہے تو بائیبل کے الفاظ اپنے آپ مقدس کتاب سے باہر آتے ہیں اور ایسی بیٹیوں کی دل جوئی کرتی ہے کہ
”میں تمہارے آنسوؤ ں سے نئے صحیفے لکھ رہی ہوں
جس سے تم تیر جاؤ گی
اور تمہا رے دکھ ڈوب جائیں گے
ہمیشہ ہمیشہ کے لیے!
ایسی ہی بیٹیوں کے درد کی بات لطیف بھی کرتا نظر آتا ہے کہ
”ماندی نہ تھی ماروی! تنھنجو اللہ بھی آھے!“
”ماروی! کیوں مری جارہی ہو تمہارے ساتھ اللہ بھی تو ہے!“
بائیبل جیسی مقدس کتاب اور لطیف جیسے انقلابی شاعر کو بھی یہ نڈر بیٹی جواب دیتی ہے کہ
”میں ان لمحوں کو کبھی بھی نہیں بھول سکتی
جب میری روح،آنکھوں کو گم کیا گیا
اور خدا کو قتل کیا گیا!“
ہاں سچ میں جب ایسی بیٹیاں درد میں آکے گم شدہ روح کو تلاشتی ہیں تو خدا بھی قتل ہو جاتا ہے
پھر نہ گم کی گئی روح ملتی ہے، نہ آنکھیں اور نہ ہی خدا
ایسی ہی حالت کے لیے جون ایلیا نے فر مایا تھا کہ
”کیا خدا بھی مر گیا
انا الہ انا راجعون!“
جب یہ بیٹیاں درد میں ہوتی ہیں اور انہیں ہی خدا کی ضرورت ہوتی ہے تو خدا بھی تلاش کرنے سے نہیں ملتا، توریت میں یہ بھی لکھا ہے کہ
”درد نے دُکھی لڑکیوں کو منتخب نہیں کیا، پر دُکھی لڑکیوں نے درد کا انتخاب کیا ہے!“
جیسے درد نے سسئی کو منتخب نہیں کیا تھا پر سسئی نے درد کو منتخب کیا تھا
پر سمی اور مہلب کے معاملے میں ایسا نہیں ہے سمی اور مہلب کے دامن کو درد دامن گیر ہوا ہے
اور یہ جب سے مسافر ہیں!
اب درد ہے
سفر ہے
آنسو ہیں
دردوں بھری مسافری ہے
پھٹی پرانی دردوں سے بھری جوتیاں ہیں
اور سمی اور مہلب ہیں
سمی نے اپنے آواز، درد اور دکھ کو تو وائرل کیا ہے
پر وہ تصویر کیوں وائرل نہیں ہوتی
جو سراسر درد ہے اور دکھ ہے
اگر درد اور دکھ کی تصویر کُشی کی جاتی تو وہی تصویر بنتی جو سمی کی ہے
پر دوسری طرف دو رنگی دنیا میں ایک باپ اپنی بیٹی کا ہاتھ چومتا ہے اور وہ تصویر وائرل ہو ہو ہو کر اس حد تک پہنچتی ہے کہ اگر کوئی نہ دیکھنا بھی چاہیے جب بھی اس کی نظروں سے گذر ہی جاتی ہے
کیوں؟!!!
جس نے درد لیکر اپنی روح گنوا دی
جس درد لیکر اپنی نیندیں گنوا دیں
جس کے آج تک ہزاروں آنسو بہائے
جس کے پیر دھول سے آلود ہوئے
جس کے پیروں کے نشاں شال کی گلیوں اور کراچی کی سڑکوں پر ثبت ہوئے
جس کی جوتیاں درد سے بھر گئیں
جس کی مانگ میلی ہوئی
جس کے ہاتھوں میں رہ جانے والی تصویر مٹ رہی ہے
لکھا بینر مٹ رہا ہے
جو خامشی میں بولتی ہے
اور بولتے بولتے خاموش ہو جاتی ہے
جو روتی ہے
اور اداس رہتی ہے
سمی!
درد کی تصویر!
اس کی وہ تصویر کیوں وائرل نہیں ہوتی؟!
سمی درد کا ہزاروں کلو میٹر سفر طے کرنے کے باجود انہیں شال کی گلیوں میں کھڑی ہے جس گلیوں میں بابا کو آنا تھا اور وہی نہیں آیا
”وہی ہوں میں
جہاں چھوڑا تھا
تم نے
پھر سے ملنے کو
وہیں ہوں اس جگہ ہوں
ہاں اسی بس چوک پر!
بس اب فرق یہ ہے
اب تم نہیں
تو تمہا ری تصویر کے ساتھ
اور مٹتے نام کے ساتھ!


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں