وہ پہاڑوں کے پیچھے پڑا تھا کہیں ۔ محمد خان داؤد

1121

وہ پہاڑوں کے پیچھے پڑا تھا کہیں

محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

وہ رومی کی اس مصرع جیسا تھا کہ
’’اپنی زندگی کو آگ سے جلا دو
اور تلاشو انہیں جو تمہارے شعلے کے دیوانے ہیں‘‘
اس نے اپنی زندگی کو آگ سے کیا بارود کی آگ سے جلا دیا
اور تاریخ اس کے شعلے ضرور تلاشے گی!
وہ پہاڑوں کی چوٹیوں سے اترا اور دھرتی میں سمانے کو منتظر ہے
کاش کوئی جائے اور اسے دھرتی کے پرچم میں لپیٹ کر دھرتی کے سپرد کر دے
پر کوئی اسے دھرتی کے پرچم میں کیوں لپیٹے؟کیا پرچموں کو بھی سپرد پرچم کیا جاتا ہے؟
وہ تو دھرتی کا پرچم تھا سُرخ رو،بلند،بدل!
وہ جو پہاڑوں پر جھولتا رہا،جھومتا رہا
وہ شکست خوردہ پرچم نہیں تھا،وہ بلند اورآزاد پرچم تھا
ہواؤں کے سنگ جھولتا،جھومتا ہواؤں کا رُخ جس طرف بھی ہوتا پر اس کا رُخ بھی ہمیشہ اس طرف ہوتا جس طرف دھرتی، ماں اور محبوبہ کا عکس ہوتا۔
پر آج اسے ایک پرچم اور کچھ ہاتھوں کی ضرورت ہے جو ہاتھ اسے محبت و مہر سے اُٹھائیں اور سپرد پرچم کر کے دھرتی میں امانتاً جب تک سلا دیں جب تک دھرتی آزادی نہیں ہو تی اور ان کے گیت نہیں گا تی!
ان کے سروں پر سہرا نہیں سجا تی
ان کے زخمی ہاتھوں اور پیروں کو مہندی نہیں لگاتی
انہیں دلہا کا لباس پہنا کر انہیں دلہا نہیں بناتی
بس جب تک کچھ ہاتھ چاہیں جو اسے امانتاً دھرتی میں رکھ دیں
حالانکہ وہ دھرتی کے جب سے دلہا ہیں جب انہوں نے پسینے سے بھرے پستان،لالی سے بھرے لب سیاہ بال،گو رے اجساموں کو بہت پیچھے چھوڑ کر ان پہاڑوں،سفروں اور بندوقوں کی راہ لی جہاں انہیں اپنی بھی خبر نہیں ہو تی،وہ گرم بستر اور گرم بھاکر چھوڑ کر وہاں آگئے جہاں ان کا سامنا سرد ہواؤں اور نوکیلے پتھروں سے ہوتا ہے جب وہ گرم پستان بھول کر بندوق کی گرم نال سے محبت کرنے لگتے ہیں
ان کے سامنے وہ لال ہونٹ گلابی گال اور پسینے سے شرابور پستان نہیں رہتے
ان کے سامنے رہ جا تی ہے بس دھرتی
اول دھرتی
آخر دھرتی
دھرتی زندہ باد!
پھر تو وہ اپنے نام بھی بھول جا تے ہیں کون جانے کہ ریاست کون؟بدل کون؟
پھر تو وہ اپنے آپ کو اور ساتھیوں کو اس مٹی سی یاد کرتے ہیں اور مٹی کے رنگ سے یاد کرتے ہیں جہاں سے وہ آکر ان پہاڑوں کے دامنوں کو آباد کرتے ہیں کوئی نوشکی کی مٹی ہو تی ہے کوئی شال کی کوئی خضدار کی کوئی کہاں کی کوئی کہاں کی! پر وہ بس ایک بات جانتے تھے کہ سب رنگ سانول ہیں
ایسے ہیں وہ سب رنگ مٹی کے تھے سفید،بھورے،مٹیالی اور خاکی!
ان کے وجود مٹی کے اور ان کے دل دیس کی محبت میں دھڑک رہے تھے دھڑک رہے تھے دھڑک رہے تھے
وہ بھی دھرتی کا ایک بیٹا تھا،معصوم سا،پیارا سا،پرچم جیسا!گیتوں جیسا!بارشوں جیسا!جسے چاند سے یارانہ اچھا لگتا تھا جو ہو بہ ہو چاند تھا وہ سانولہ تھا اور سوال کر کے ہنستا تھا کہ
”سائیں کیا چاند بھی سانولے ہو تے ہیں؟“
اور بہت ہنستا تھا
اور کہتا تھا پو ری عمر اماں مجھے چاند کہتی رہی ہے اب جب چاند کو تنہائی،اکیلائی اور خاموشی میں دیکھا ہے تو ہنسی آتی ہے کہ چاند تو روشن ہے اور میں سانولہ اور چاند سانولہ کیسے ہو سکتا ہے
اور پھر بہت ہنستا تھا
جسے چاند سے باتیں کرنا اچھی لگتی تھیں
جو رات کے آخری پہروں میں چاند سے ہم کلام رہتا
جو چاندنی میں ڈوب کر دھرتی کے شہیدوں کی روحوں سے بات کرتا
جو آپ پہاڑ آپ پتھر تھا جس کی دلی خواہش تھی کہ وہ دھرتی کا ایسا پہاڑ جو جس کی چوٹی لہو لہو ہو
وہ دھرتی کا ایسا پتھر ہو جو سُرخ لہو سے بھرا ہوا ہو
اور چاہیے جتنی بارشیں برسیں وہ لہو نہ اترے
آج وہ سُرخ پہاڑ کی چوٹی بن کر سرد خانے میں نامعلوم لاش بنا پڑا ہوا ہے
آج وہ لہو لہو پتھر بن کردھرتی کے سینے پر لڑک رہا ہے
آج وہ دھرتی سے بہت آگے نکل چکا ہے
جسے موت بھی حیرت سے تک رہی ہے
جسے ماں،محبوبہ اور دھرتی سے محبت تھی
وہ جو آج آپ دھرتی بن گیا ہے
وہ جسے باپ گالی دیتا تھا ماں دعائیں اور محبوبہ کی بس یہ خواہش تھی کہ ایک بار ہی صحیح پہاڑوں سے اترو اور اسے اپنی بہانوں میں بھر لو
پر وہ تو دھرتی سے وفا کا عہد کر چکا تھا
وہ جو کہتا تھا ”سائیں آپ نہیں جانتے کہ سیکس کیا ہے؟سیکس کا مزا ہی اصل زندگی ہے سیکس جو ایک بار بدن کو چھو جائے انسان کہیں کا نہیں رہتا سائیں میں اس سے گزرا ہوں اور جانتا ہوں کہ یہ کیا بلا ہے“
پھر ہنستا اور کہتا میں نے بھی کیا ہے پر آدھا آدھا!
وہ جو پوری دھرتی تھا
وہ جو پوری محبت تھا
وہ جو پورا پورا پیار تھا
وہ جو محبت کی زمیں تھا
وہ ان لکھا ان گایا کوئی گیت تھا
وہ جو ماں کی بولی اور محبت کی زباں تھا
وہ جو دھرتی کا پرچم تھا
اسے بس کچھ ہاتھ درکار ہیں بس کچھ ہاتھ جو اسے،اس سرد خانے سے اُٹھائیں اور دھرتی کے پرچم میں لپیٹ کر دھرتی کے سپرد کر دیں اور دھرتی اس کے وجود کو پا کر جاگ جائے یا بے قرار دھرتی ٹھہر جائے!
دھرتی کی بے قراری کو دیکھو اور اسے سپرد دھرتی کردو
یہ بھی بہت بڑا ظلم ہے کہ پرچم پرچم میں لپیٹا جائے
یہ بھی بہت بڑا ظلم کے کہ سُرخ پہاڑ کی چوٹی دھرتی کے حوالے کی جائے
یہ بھی بہت بڑا ظلم ہے کہ لہو لہو پتھر دھرتی میں دفن کیا جائے
پر دھرتی کی بے قراری دیکھ کر یہ بس کچھ کرنا پڑے گا
وہ ہاتھ جو چاند کو چھو تے تھے۔وہ ہاتھ جو بندوق کو سنبھالتے تھے
وہ ہاتھ جو محبوبہ کو نہیں پر اپنے سرمچاروں کے خاکے لکھتے تھے
وہ ہاتھ دھرتی میں دفن ہو جانے کو بے قرار ہیں
میں اس باغی کی کتھا کیسے لکھوں اور کیوں لکھوں اب تو وہ نہیں اور کون پڑھے گا اور مجھ سے ضد کون کریگا؟
بس آگے بڑھے ان ہاتھوں اور پیروں کو دفنا دو
جو بہت بے قرار ہیں.دھرتی میں سمونے کو
”وہ پہاڑوں کے پیچھے پڑا تھا کہیں
جیسے سورج شفق میں نہایا ہوا
سون میانی میں ڈبکی لگاتا ہوا
وہ لہو رنگ تھا
اور لڑا تھا وہیں
وہ پہاڑوں کے پیچھے پڑا تھا کہیں
وہ اونٹوں کے ٹلیوں میں بجتا ہوا
ساربانوں کے ہونٹوں پہ سجتا ہوا
وہ کئی گیت تھا
ماؤں کی لوریوں میں کوئی نیند تھا
صحراؤں میں رکتے ہوئے قافلے
وہ پڑاؤ میں جلتی ہوئی آگ تھا
اسکی دھرتی تھی سونا اگلتی ہوئی
اسکے لوگوں میں غربت ابلتی مگر
پر ہر طرف چور تھے
شور ہی شور تھے
رہزنوں سے بھرے راستے پر خطر
رہبروں سے لٹے قافلے بھی بہت
رات تو رات تھی
دن بھی تاریک تر
وہ لوگوں کی آنکھوں میں تھا رت جگے
لوگو سونا نہیں جاگنا ہے ابھی
یہ تو کہتا تھا وہ
ہر دل میں رہتا تھا وہ
چراگاہوں میں چرواہوں کے چنگ میں
بوڑہے گدڑیے کی بنسری میں تھا وہ
قافلہ اس سرائے میں جو تھا رُکا
لڑکیو!ڈھول کی تھاپ پر
لوک گیتوں غنانوں کی اس چاپ پر
مہندی کے کھیتوں کی خوشبو میں وہ
ہر اس کاریز میں
بہتے جھرنوں کے ان پانیوں میں بھی وہ
تیرے گھگھوں کے ان آئینوں میں بھی وہ
وہ لہو رنگ تھا وہ لڑا تھا وہیں
وہ پہاڑوں کے پیچھے پڑا تھا کہیں“


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں