حفیظ کی جبری گمشدگی کیخلاف بلوچستان و کراچی میں احتجاج جاری

320

بلوچستان کے ضلع خضدار سے ایم فل کے طالب علم حفیظ بلوچ کی جبری گمشدگی و اسلام آباد میں بلوچ طالب علموں کے ساتھ اسلام آباد پولیس کے رویہ کے خلاف آج بلوچستان کے مختلف اضلاع میں بلوچستان نیشنل پارٹی و بلوچ طلبہ تنظیموں کی جانب سے احتجاج و مظاہرہ کیئے گئے۔

مظاہرے بلوچستان ضلع خضدار، کوہلو، دالبندین اور پسنی سمیت بلوچستان کے مختلف اضلاع میں کیئے گئے۔

ان مظاہروں میں شرکاء نے مختلف بینرز اٹھا رکھے تھے جن میں طالبعلم حفیظ بلوچ کی بازیابی کے مطالبات اور اسلام آباد پولیس کیخلاف نعرے درج تھے۔

ان مظاہروں سے مقررین نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ریاست اور ان کے حکمران نہیں چاہتے کہ بلوچ، پشتون اور سندھی قوم پڑھ لکھ کر ترقی کریں اسی وجہ سے انہیں جبری گمشدگی، سنگین مقدمات اور تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کسی بھی معاشرے یا ملک کی آئین میں ہر قوم اور شہر کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے حقوق کے لئے پرامن احتجاج کریں مگر موجودہ کٹ پتلی حکومت ملک کو ڈکٹیٹروں کی طرح چلانا چاہتا ہے۔

مقررین نے طالبعلم حفیظ بلوچ، بارکھان سے لاپتہ ہونے والے تین سماجی کارکنان اور دیگر لاپتہ افراد کو بازیاب کرانے کا مطالبہ کیا ہے جبکہ شرکاء نے اسلام آباد میں بلوچ طلباء پر لاٹھی چارج و تشدد کرنے والے پولیس آفیسرز اور اہلکاروں کیخلاف بھی قانون کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

مقررین کا کہنا تھا کہ بلوچستان سے جبری گمشدگیوں کی فہرست بہت طویل ہے اس کی ابتداء سردار عطااللہ خان مینگل کے جوان سالہ فرزند اسد مینگل سے ہوا جس کا سلسلہ اب تک تھم نہ سکا، سعد اللہ بلوچ، جنگیز بلوچ اور غفور بلوچ سے لیکر حفیظ بلوچ تک جاری ہے، گذشتہ ماہ خضدار میں ہمارے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان کو دوران تعلیم اسکول پر چھاپہ مار کر اٹھایا گیا، جبکہ اسلام آباد میں بلوچ طلبہ نے جب جبری گمشدگیوں کے خلاف اپنا بنیادی حق استعمال کرتے ہوئے احتجاج کیا تو ان طلبہ پر بہیمانہ تشدد کیا گیا، ان طلبہ پر ایف آئی آر بھی درج ہوا، حالانکہ ریاست ماں کی حیثیت رکھتی ہے، یہ کیسی ماں ہے جو بچوں کے ساتھ زیادتی کررہی ہے، ہم سے صرف بلوچستان کے لاپتہ افراد کے لیے نہیں بلکہ پورے پاکستان کے گمشده افراد کے لیے احتجاج کررہے ہیں، سب بھی ہماری خواتین اسلام آباد میں احتجاج پر ہیں، وہ خواتین کہ جن کی دوپٹہ تک کسی نے نہیں دیکھا تھا آج وہ اسلام آباد کی سڑکوں پر دربدر کی ٹھوکریں کھا رہی ہیں

انہوں نے کہا کہ ہم یہ سمجھتے کہ ایک سازش کیتحت تعلیم یافتہ نوجوانوں کو اٹھا کر غائب کیا جاتاہے، ہمیں پہلے یہ طعنہ دیا جاتا تھا کہ بلوچ تعلیم سے دور ہے اب جب ہمارے نوجوان اعلی تعلیم کی طرف گامزن ہے تو ان کو اٹھاکر غائب کیاجارہاہے۔

انہوں نے کہاکہ ہمارا یہ مطالبہ ہے کہ اگر ان گمشدہ بلوچوں پر کوئی الزام ہے تو پھر ان کو سامنے لاکر اپنی ہی عدالت سے سزا دلوائیں ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا لیکن جبری گمشدگی بالکل قابل قبول نہیں۔