جبر کے سائے میں عافیت – اسد بلوچ

361

جبر کے سائے میں عافیت

تحریر : اسد بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

کامریڈ گلزار، تربت سول سوسائٹی کے فیصلے کی رو سے بلوچستان میں جبری گمشدگیوں، لاپتہ افراد کی بازیابی، لینڈ ایکوزیشن ایکٹ 1894 کے زریعے بلوچستان اور سندھ میں بلوچوں کی آبائی زمینوں پر قبضہ گیری اور بلوچستان میں منشیات پھیلا کر نوجوان نسل کو تباہ کرنے کی منصوبہ بندی کو دنیا کے سامنے آشکار کرنے کے لیے 27 فروری 2022 سے پیادہ تربت ٹو کوئٹہ لانگ مارچ پر نکلے ہیں۔

اس وقت وہ جس گاؤں، دیہات یا شہر سے گزرے ہیں خواتین، بچوں، مردوں غرض بلوچوں نے ان کا ہر جگہ پر تپاک اور پر مہر استقبال کیا۔
کامریڈ گلزار دوست جن چار بنیادی نکات کو لے کر لانگ مارچ کررہے ہیں یہ تمام ریاست کے آئین اور قانون کے دائرے میں شخصی آزادی کے عین مطابق ہیں۔ یہ ایک پر امن اور جمہوری جدوجہد ہے جو آئین کے دائرے میں رہ کر کی جارہی ہے۔

ایک اور بات یہ کہ کامریڈ گلزار دوست ایک سیاسی کارکن ہیں جو بلوچستان میں جاری عشروں پر محیط جبر اور تشدد کے خلاف سرگرم رہتے آئے ہیں وہ 80 سالہ ماما قدیر اور دس سالہ علی حیدر کے بعد لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے دوسری طویل لانگ مارچ پر نکلے ہیں۔

27 فروری سے اب تک کامریڈ گلزار دوست کو صرف بلوچ حلقوں کی حمایت مل رہی ہے۔پاکستان یا پاکستان سے باہر پاکستانی دانش ور طبقہ مسلسل خاموش ہے۔

اب تک نہ ریاست اور نا ہی ریاستی اداروں کی طرف سے کوئی رابطہ کیا گیا، مسائل معلوم کیے گئے، مشکلات سے آگاہی پانے کی کوشش ہوئی نا ہی مطالبات پر عمل درآمد کی یقین دہانی پر لانگ مارچ ختم یا موخر کرانے کی بظاہر کوشش ہوئی ہے۔

ضلع کیچ سے ظاہری طور پر چار منتخب صوبائی اسمبلی کے اراکین، ایک غیر منتخب رکن صوبائی اسمبلی، وفاقی اسمبلی کا ایک ممبر اور اس کے ساتھ دو عدد سنیٹر بھی وجود رکھتے ہیں نا ان کی طرف سے کامریڈ گلزار دوست یا تربت سول سوسائٹی کے ساتھ معاملات پر رابطہ کاری کی کوئی کوشش کی گئی، بات چیت، مزاکرات اور مل بیٹھنے کا سندیسہ آیا۔
یہ ہوئی ریاست، ان کے ادارے اور اداروں میں خصوصاً قانون ساز اداروں کے اراکین کا احوال۔

مگر جب سے لانگ مارچ شروع ہوئی ہے تب سے تربت سول سوسائٹی نے بلوچ اور غیر بلوچ شعوریافتہ، سماج سے منسلک دانش ور طبقہ سے رابطہ برقرار رکھا، انہیں لانگ مارچ کے متعلق معلومات دیں، اس پہ کچھ لکھنے، پاکستانی عوام کو باخبر رکھنے اور آئینی جدوجہد پر حمایت حاصل کرنے کی سعی کی ہے جو لاحاصل رہی ہے۔ البتہ غیر بلوچ حلقے میں صرف محترم محمد عامر حسینی نے ایک پوسٹ، ریاض سہیل صاحب نے دو ٹویٹ اور اپنے محمد خان داؤد نے دو آرٹیکل قلمبند کیے جس کا تربت سول سوسائٹی خیر مقدم کرتی ہے۔

باقی جن شخصیات سے رابطہ ہوا، انہوں نے معلومات چاہیں اور وہ پھر بھی خاموش رہے ان کا بھی شکریہ کیوں کہ وہ بھی اسی اندھے، گونگے اور بہرے سماج کا حصہ ہیں جہاں جبر اور زیادتیوں پر رائے دینے کے بجائے زاتی تشہیر کی ضرورت زیادہ محسوس ہوتی ہے۔

تربت سول سوسائٹی کامریڈ گلزار دوست کے پا پیادہ لانگ مارچ کو اس اندھے، گونگے اور بہرے سماج میں روشنی کی کرن سمجھتی ہے، ہمارے دوست یہ امید رکھتے ہیں کہ کم از کم انسانی حقوق پر رائے رکھنے والے صاحب الرائے شخصیات پاکستان کی تاریخ کے دوسرے طویل لانگ مارچ پر لب کشائی اور اپنے لوگوں کو جبر و زیادتیوں کے بارے میں آگاہی دینے کی کوشش کریں گے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں