میگزین کی اہمیت اور افادیت پر ایک تبصرہ
تحریر: اعجاز بابا
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی بلوچستان کی ایک متحرک ترین قومی طلباء تنظیم ہے جو نہ صرف انتظامی طور پر تقسیم بلوچستان میں اس وقت فعال ہے بلکہ صوبہ پنجاب اور سندھ کے بھی مختلف بلوچ علاقوں اور تعلیمی اداروں میں بطور ایک بلوچ طلباء تنظیم اپنی تنظیمی پروگرام پہنچا کر وہاں بلوچ نوجوانوں کی سیاسی,علمی اور شعوری تربیت کررہی ہے۔
بساک کا اولین مقصد بلوچ طالب علموں کی سیاسی و نظریاتی تربیت کرنا ہے اور انہیں صحیح معنوں میں فکری و نظریاتی سمت دے کر بلوچ معاشرے میں ایک باشعور انسان اور ایک قومی سیاسی رہنماء کی حیثیت سے متعارف کرانا ہے تاکہ وہ بلوچ قومی کاز کے مطابق اپنی قوم کی صحیح معنوں میں ترجمانی کر سکے۔
تنظیم کی مخلص اور نظریاتی پختگی سے لیس زمہ دار دوستوں کی انتھک محنت اور جدوجہد سے تنظیم نے پاکستان کے مختلف تعلیمی اداروں میں بلوچ طالب علموں کی سیاسی،علمی اور نظریاتی تعلیمی ضروریات کو محسوس کرتے ہوئے اور خاص کر بلوچ معاشرے میں ہر طبقہ ہائے فکر کے عوام کو مد نظر رکھ کر تنظیمی مرکزی آرگن“نوشت”تاک کے نام سے سیاسی لٹریچر کا باقاعدہ آغاز 2020 میں کامیابی کے ساتھ کیا۔
اسی تسلسل کو جاری رکھتے ہوئے تنظیمی زمہ داروں نے اپنی انتھک محنت، مستقل مزاجی اور سنجیدگی سے دوسری،تیسری اور اب چوتھی نوشت میگزین تسلسل کے ساتھ شائع کی ہے جو کہ تنظیم کی جانب سے ایک خوش آئندہ اور کامیاب ترین عمل ہے۔
نوشت میگزین بلوچ طلباء کی سیاسی لٹریچر سے وابستگی برقرار رکھنے کے ساتھ ساتھ سیاسی و علمی تربیت کے لئے اہم کاوش ہے ۔تنظیم میں سیاسی لٹریچر سیاسی اداروں کیلئے بہت اہمیت رکھتی ہے کیونکہ تمام محکم اداروں کی بنیادی ترجیح ممبران کی زہنی و سیاسی تربیت پر مبنی ہوتی ہے کیونکہ سیاسی تربیت ہی سے لیس ممبران کو پختہ سوچ کا مالک اور انہیں تنظیمی پروگرام پر جدوجہد کیلئے کارفرما بنایا جاسکتا ہے۔
تنظیم کی جانب سے مسلسل شائع ہونے والی سئے ماہی نوشت کی اہمیت و افادیت پر طائرانہ جائزہ لیا جائے تو میں اس بات پر قائل ہوں کہ اپنی مادری زبانوں بلوچی اور براہوئی میں سیاسی لٹریچر کی اشاعت اس وقت کسی بھی بلوچ تنظیم کی سب سے بڑی کامیابی ہے جس میں بساک ایک قلیل مدت میں کامیاب ہو پایا ہے۔ نوشت تنظیمی آئین اور تنظیمی اغراض ومقاصد کے مطابق بلوچ نیشنلزم نظریہ پر منحصر لٹریچر ہے۔
بحثیت سیاسی کارکن میرے مطابق نوشت آج کے اس جدید دور میں ایک کامیاب اور خاص کر بلوچ قوم کیلئے ایک معیاری سیاسی لٹریچر ہے جو اپنے مادری زبانوں میں مدت کے ساتھ شائع ہو رہی ہے۔ اپنی مادری زبانوں میں اس طرح کی سیاسی لٹریچر کی اشاعت یقیناً ایک کامیاب ترین عمل میں سے ایک ہے۔ حالانکہ بساک بلوچ نیشنلزم کے پختہ نظریے پر کارفرما ہے جس کے لئے عملی طور پر بلوچ مادری زبانوں میں سیاسی لٹریچر مہیا کر رہا ہیں ۔۔جس میں اب تک کوئی بھی تنظیم مکمل طور پر کامیاب نہیں ہو پایا ہے۔اگر دیکھا جائے تو دیگر زبانوں میں بلوچ سیاسی تاریخ اور نیشنلزم کے دفاع میں بہت کم معیاری آرٹیکلز لکھے گئے ہیں لیکن نوشت میگزین میں جس طرح ریسرچ آرٹیکلز اور منطقی لٹریچر موجود ہیں جنہیں پڑھنے سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ روایتی طرز لٹریچر سے ہٹ کر تحقیقی و منطقی لٹریچر پر زور دیا گیا ہے۔
نوشت کی ایک سب سے بڑی خوبصورتی یہی ہے کہ اس میں غیر معیاری اور لفاظی آرٹیکلز کے بجائے معیاری لٹریچر کو ہی ترجیح دی گئی ہے۔ نوشت کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آج بلوچستان سمیت پاکستان بھر سے بلوچ نوجوان،شاعر،ادیب، لکھاری، قوم دوست اور مختلف طبقائے فکر سے تعلق رکھنے والے بلوچ افراد نوشت کو مسلسل پڑھ رہے ہیں اور اس سے استفادہ حاصل کر رہے ہیں۔
کیونکہ نوشت تاک زیادہ تر بلوچ قوم کی حقیقی تاریخ ،بلوچ سیاست کی تاریخ اور بلوچ نیشنلزم کی اہمیت و اس کی تاریخی پہلو پر بات کرتی ہے اس کے ساتھ ساتھ نوشت تاک میں قومی جدوجہد اور دنیا بھر کے محکوم اقوام کی لٹریچر، نظریاتی و سیاسی جدوجہد اور مختلف سیاسی تھیوریز پر بہترین آرٹیکلز پڑھنے کو ملیں گے۔ بلوچ نیشنلزم اور اس کی سیاسی تاریخ پر نوشت میں جس بہترین انداز میں تحریریں ملیں گی وہ اپنی مثال آپ ہے۔
تنظیم یقینی طور پر ایک ایسے ادارہ کی شکل اختیار کر چکی ہے جس پر نا صرف تعلیمی حقوق کی جدوجہد کی زمہ داریاں عائد ہو چکی ہیں بلکہ اپنی قومی زبانوں اور دیگر قومی زمہ داریوں کو بھی پورا کرنے میں تنظیمی ساتھی پیش پیش نظر آرہے ہیں۔
تنظیم نے اس وقت بلوچستان میں سب سے اہم زمہ داریاں اپنے کندھوں پر لی ہوئی ہیں جن کو پورا کرنے میں کامیابی کی طرف گامزن ہے۔
نوشت نے نہ صرف بلوچ طلباء کی سیاسی تربیت کا فریضہ انجام دیا ہے بلکہ بلوچ سیاسی کلچر کو بھی تبدیل کرکے رکھ دیا ہے۔ حالانکہ، بلوچ اس وقت نوآبادیاتی دور سے گزر رہی ہے جہاں بلوچ نوجوانوں کیلئے اپنی زبان سے محرومی کا مطلب اپنی شناخت کلچر اور تاریخ سے محروم ہونے کے برابر ہے۔
اسی لئے ایک قوم کی مادری زبان کی اہمیت اور ضرورت پر کچھ ادیبوں کا ماننا ہے کہ ”دنیا میں انسان کی سب سے بڑی ایجاد اسکی زبان ہے۔کیونکہ زبان صرف رابطہ کاری، لکھنے اور پڑھنے کا مؤثر ذریعہ نہیں ہوتی بلکہ زبان ایک قوم کی پہچان اور اسکی سب سے بڑی میراث ہوتی ہے۔اسی زبان کے ساتھ اس قوم کی یاداشت،خیالات،الفاظ،قصہ و کہانیاں،ادب اور تاریخی میں قومی ہیروز کی جنگی داستاں و انکی حالات زندگی ، کلچر،روایات اور سب سے بڑھ کر اس قوم کی اپنی سر زمین اور اس میں بسنے والے قوم کی مہر و محبت اور جذبہ موجود ہوتا ہے۔ اسں بات سے واضع دلیل ہے کہ اگر ایک قوم کو مکمل طور پر نیست و نابود کرنا چاہتے ہو تو سب سے پہلے اسکی زبان ختم کرکے اسکی جگہ اپنی زبان کو ترقی و ترویج دے دو تو اس قوم کی زبان کے ساتھ ساتھ ساری قومی ہستیاں ختم ہو جاتی ہیں۔
لیکن اسی اثناء میں بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی نے اپنی قومی بقاء،تنظیمی آئین اور اغراض ومقاصد کو سمجھتے ہو ئے قوم کی مادری زبان کی اہمیت و افادیت کو مد نظر رکھ کر دیگر زبانوں میں سیاسی لٹریچر فروخت کرنے کے بجائے تمام پرسودہ روایات کو پس پشت ڈال کر سیاسی میگزین کو قومی زبان میں شائع کرواکے ایک نیا اقدام اٹھایا جو کہ مستقبل میں مثبت نتائج مرتب کر سکتی ہے۔
نوشت کی مسلسل زبانوں میں چوتھی اشاعت اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ بلوچ طالب علم نوشت میگزین کو دلچسپی،اپنی قومی زمہ داری،اور سب سے بڑھ کر اپنی مادری زبانوں کی اہمیت کو سمجھ کر بے حد مخلصی سے پڑھ کر اپنی سیاسی و علمی تربیت کے ساتھ ساتھ اس پر لیکچرز،ڈسکیشنز،مکالمہ بازی ، تربیتی پروگرامز بھی اپنی مادری زبان میں کررہے ہیں۔
حالانکہ ، حالیہ دنوں میں 21 فروری کو پوری دنیا میں عالمی مادری زبانوں کا دن بہت احسن طریقے سے منایا گیا۔ اسی دن کے مناسبت سے بساک کی جانب سے پورے بلوچستان اور سندھ کے مختلف علاقوں میں 21 فروری کو عالمی مادری زبان اور بلوچ قوم کی مادری زبان بلوچی اور براہوئی زبان کی اہمیت پر پروگرامز کا انعقاد کئے گئے اور تربیتی پمفلٹ بھی مختلف جگہوں پر شائع کئے گئے۔
کیونکہ تنظیم صرف لفاظیت پر یقین نہیں رکھتی بلکہ عملی طور پر بلوچ قوم کیلئے کچھ کرنے کی جدوجہد میں سرگرمِ عمل ہے اور اس جانب اب تک بساک تیزی سے گامزن ہے۔
شاید میں ایک ادنیٰ سا سیاسی کارکن کی حیثیت سے نوشت لٹریچر کی اہمیت کا اندازہ پوری طرح لگانے میں کامیاب نہیں ہوا ہوں مگر جس تیزی سے نوشت بلوچ سماج اور خاص کر بلوچ نوجوانوں کیلئے اچھے اور مثبت نتائج برآمد کر رہی ہے۔
اس سے امید لگایا جا سکتا ہے کہ نوشت تاک آنے والے دنوں میں بلوچ سیاسی کلچر کو مزید صحیح معنوں میں علمی و نظریاتی اور عملی راستہ ضرور دکھائے گا۔
یہاں سب سے بڑی زمہ داری یہ بنتی ہے کہ وہ نوشت تاک کو پڑھا جاسکے ، اس پر مکالمہ کیا جاسکے کیونکہ نووشت تاک کی اشاعت کا سب سے بڑا مقصد ہی یہی ہے کہ قوم دوستی کی نظریے کو مزید پروان چڑھایا جاسکے ۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں