مادری زبان میں تدریس و تعلیم طلبہ میں تخلیقی صلاحیتوں کو نکھارتا ہے ۔ایس ایس ایف

632

سیو اسٹوڈنٹس فیوچر کے ایجوکیشنل سیکریٹری” سلیم بلوچ” نے اکیس فروری( مادری زبانوں کے عالمی دن) کے موقع پر اپنے ایک بیان میں کہا کہ مادری زبان کسی بھی قوم کا ارتقائی اثاثہ ہے جو نہ صرف رابطے کا ذریعہ ہے بلکہ اس قوم کے افراد حقیقی معنوں میں اپنے احساسات و جزبات کا اظہار بھی مادری زبان کی صورت میں کرسکتے ہیں.

انہوں نے کہا کہ یہ دن جہاں مادری زبان کی نصابی و غیر نصابی اہمیت، قومی ارتقائی عمل اور قومی تاریخ کا احساس دلا کر مادری زبان سے تعلق کو مضبوط کرتا ہے وہیں یہ دن بنگلہ دیش کے باشندوں کی مادری زبان کے لئے انکی جدوجہد و قربانیوں کی یاد دلاتا ہے.

انہوں نے مزید کہا کہ اکثریت میں بنگالی زبان بولنے والوں کے باوجود جب بطور اردو سرکاری زبان کو لاگو کیا گیا تو بنگلہ دیش کے عوام خصوصاً طلبہ طبقے نے اس عمل کی بھر پور مزاحمت کی اپنی مادری زبان سے محبت کی پاداش میں اکیس فروری 1952 میں پولیس نے ڈھاکہ یونیورسٹی کے طلبہ و دیگر مظاہرین پہ سیدھی فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں پانچ طلبہ موقع پہ شہید اور سینکڑوں زخمی ہوگئے،ڈھاکہ کی سڑکوں پہ رونما ہونے والے اس واقعے کے دو دہائیوں بعد مشرقی پاکستان بنگلہ دیش و بنگالی انکی مادری زبان کے ساتھ ساتھ قومی زبان بھی بن گیا وہاں اس واقعہ نے پوری دنیاں کو یہ سبق دیا کہ مادری زبان کی کیا اہمیت ہے.

انہوں نے کہا کہ اس واقعہ کے تین سال بعد بنگلہ دیش میں پہلی بار مادری زبان پہ قربان ہونے والوں کی یاد میں اکیس فروری کو مادری زبان کا دن منایا گیا اور 1999 کو یونیسکو( UNESCO) نے بنگلہ دیش کے دل سوز واقعے کی مد میں اکیس فروری کو مادری زبانوں کا علمی دن قرار دیا جس کا مقصد دنیا میں معدومیت کے خطرے سے دوچار زبانوں کو بچانے، انکو فروغ دینے و علاقائی سطح پہ تعلیمی اداروں میں انکو رائج کرکے طلبہ کی علمی خصوصیات کو اجاگر کرنا تھا.

انہوں نے کہا کہ مادری زبان کی اہمیت و ضرورت کے فلسفے کو مدنظر رکھتے ہوئے مذکورہ عالمی دن کو ہر قوم کے باشعور لوگ بڑے جوش و خروش سے منانے کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں.

یقیناَ یہی وجہ ہے کہ جو قومیں ترقی کے منازل طے کرچکے ہیں انکی ترقی کا راز انکی اپنی زبان کی ترقی میں پوشیدہ ہے. سرکاری زبان یا پھر بینلاقوامی زبان جہاں نصاب کا حصہ بنا کر طلبہ کی قابلیت کا پیمانہ بنا کر طلبہ کے ٹیلنٹ کو متاثر کیا جاتا ہے وہیں ہر ادارے میں مادری زبان بولنے سے نہ صرف خیالات کا اظہار ممکن ہوگا بلکہ قوم کے لوگ ہر موضوع کو حقیقی معنوں میں جامع انداز سے ترسیل کر پائینگے، مادری زبان پہ دیگر زبانوں کو بلاوجہ ترجیح دینا ایک طرف زبان کے ارتقاء میں رکاوٹ کا سبب بن رہی ہیں تو دوسری طرف لوگوں کے جزبات، خیالات، نقطہ نظر اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت پہ بھی تابوت میں کیل لگانے کے مترادف ہیں، تعلیمی اداروں میں مادری زبان میں حصول تعلیم کی اہمیت پہ ایک دانشور کا قول ہے کہ” مادری زبان کے علاوہ کسی اور زبان میں تعلیم حاصل کرنا ایسا ہی ہے جیسے بادام کو چھلکے کے ساتھ کھانا جسکا نہ زائقہ محسوس کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی جسم کو توانائی ملے گی اس کے برعکس مادری زبان میں تعلیم حاصل کرنا بغیر چھلکے کے بادام کھانے کے مترادف ہے جس کا زائقہ بھی محسوس ہوتا ہے اور جسم کو توانائی بھی ملتی ہے”.

یہ ایک حقیقت ہےکہ زبان کی ابتداء سےقبل انسان اشاروں کی مدد سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے تھے، ضروریات زندگی پورے کرتے تھے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ سماجی ترقی کے منازل طے کرتے رہے تو الفاظ کا معرض وجود میں آنا ایک قدرتی امر تھا.

انسان اشاروں سے چھٹکارہ پاکر الفاظ ادا کرنے کے مراحل میں داخل ہوا اور یہی انسان کائنات کے تمام اشیاء کو مخصوص ناموں سے پکارنے اور یاد کرنے لگا مادری زبانوں کا یہ ارتقاء ہزاروں سالوں کی مرہون منت ہے یہی وجہ ہے کہ انسان جس طرح اپنے جزبات، خیالات، نظریات اور نقطہ نظر کا اظہار اپنی مادری زبان میں کر سکتا ہے وہ دیگر نصابی، سرکاری یا بین الاقوامی زبان میں ہر گز نہیں کرپاتا اور ایسا کرنا فطری اصولوں کی بھی خلاف ورزی ہے.

مادری زبانوں کے ہزاروں سالہ جامع ارتقاء کی وجہ سے باقاعدہ طور پر انسان کی زبان سماج میں رائج ہونا شروع ھوئی، تحریر کو مضبوط بنیاد قرار دے کر انسانوں نے اپنے جزبات، کیفیات ، خیالات و خواہشات کو قارئین تک بطور پیغام پہنچانا شروع کیا.

ہزاروں سالوں پہ محیط اس ارتقائی سفر میں یقیناً انسانی آبادی میں اضافہ ہونا بھی فطری قانون و اصولوں کے عین مطابق تھا جو کہ وسائل و نئی چراگاہوں کی تلاش کے لئےزمین کے مختلف خطوں کی جانب ہجرت کرنے کا سبب بنا جس سے مختلف زبانیں معرض وجود میں آئی آج یہی وجہ ہے کہ ہر خطے میں لوگوں کے زبانوں کی صوتی ادائیگی ایک دوسروں سے مختلف ہے.

دنیا میں کم وبیش 573 ایسی زبانیں تھیں جو عدم توجہی کی سبب اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکیں اور انکا وجود مٹ گیا کیونکہ ان زبانوں پر توجہ نہیں دی گئی ان زبانوں کے لیٹریچر کو نظر انداز کیا گیا ان زبانوں کے الفاظ خاک کی مانند دھول میں اڑ گئے.

مزید ان کا کہنا تھا کہ بلوچی و براہوئی ہماری مادری زبانیں ہیں یہ دونوں دنیا کے قدیم زبانوں میں سے ہیں .ان میں مہر گڑھ کی قدامت کا ذائقہ موجود ہے،
دنیا مسلسل ترقی کی راہ پر گامزن ہے سائنس و ٹیکنالوجی کی بڑھتی ہوئی ضروریات کی وجہ سے بعض اوقات ہم اپنے مادری( لمہ ای) زبان کی اہمیت کو بھول جاتے ہیں.

انگریزوں و دیگر نوآباد کاروں نے محکوم اقوام کی نفسیات پہ ایسا کاری وار کیا ہے کہ آج کا نوجوان نوآباد کار کی زبان کو بطور فیشن لکھ و بول کر اسکو ماڈرن ازم سے تشبیہ دیتا ہے. ماڈرن ازم ہرگز یہ نہیں کہ اپنی مادری زبان سے جان چھڑائی جائے بلکہ مادری زبان پہ کام کیا جائے، اس کو ادارتی بنیاد پہ بروئے کار لا کر قوم کی اجتماعی قابلیت کو اجاگر کیا جائے، رابطہ کاری و آگاہی مادری زبان میں دے کر ہی قومیں اجتماعی ہنر، قابلیت اور سوچ کو پروان چڑھا کر ترقی کے زینے طے کرتی ہے.

ہمیں اپنے تعلیمی اداروں میں براہوئی و بلوچی زبان کی اہمیت کو جان کر باقاعدہ مخصوص کلاسوں پر توجہ دینا چاہیے تاکہ حال و مستقبل میں ان دونوں شیرین زبانوں کی الفاظ ہم سے کھو نہ جائیں، ہمیں مختلف سائنسی و ادبی کتابوں کا ترجمہ بلوچی و براہوئی زبان میں کرکے قوم کو مادری زبان سے بلد کرنا چاہئے اور مادری زبان کی محبت و اہمیت کو اجاگر کرنا چاہئے.

آج کے دور میں اگر انگریزی و دوسری زبانیں ہماری ضرورت بن گئی ہیں تو ضرورت کی حد تک اس امر سے انکار نہیں مگر اس سے مراد یہ بالکل بھی نہیں کہ مادری زبان کی اہمیت، بول چال اور پہچان کو ترک کردیا جائے.

انہوں نے کہا کہ اگر بلوچی و براہوئی زبان کے تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو ان دونوں زبانوں کے بولنے والوں نے دنیا میں اچھائی ،بھلائی،بہادری،مہمان نوازی کے میدانوں میں اپنے جھنڈے گاڑے ہیں آج تک تاریخ کے اوراق میں ان دونوں زبانوں کے بولنے والوں کی ثقافت، رہن سہن، روایات صفحہ اول پر قارئین کو ملیں گے.

بلوچی و براہوئی محض بلوچستان میں نہیں بلکہ دنیا کے بیشتر ممالک میں بلوچ قوم کی موجودگی میں بولی و سنی جاتی ہے. ان دونوں زبانوں میں شاعری بھی کی جاتی ہے جو کہ اپنی مثال آپ ہے.

کچھ تاریخ دانوں کے بقول براہوئی و بلوچی زبان کے کچھ ایسے الفاظ ہے جو ہماری غفلت کی وجہ سے آج ہمیں سننے کو نہیں مل رہے ہیں مگر ہمارے قلم کار،شاعر ، پروفیسر ان کی پٹ و پول میں لگے ہوئے ہیں.

ہمیں امید ہے کہ بلوچ دانشور، قلم کار، شاعر، طلبہ و دیگر طبقہ اپنی مادری زبانوں کو دل و جان سے محبت اور ان کے لیٹریچر پر کام کرکے بلوچ قوم کی مادری زبانوں کو فروغ دیں گے.