بلوچستان کے ضلع قلات کے علاقے منگچر سے رواں مہینے پاکستانی فورسز کے ہاتھوں جبری گمشدگی کے شکار لاپتہ کفایت بلوچ کی اہلیہ نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں اس امید کے ساتھ یہاں آئی ہوں کہ میری فریاد اعلیٰ حکام تک پہنچانے میں آپ بطور ذمہ دار صحافی اپنا کردار ادا کرینگے۔ میری کہانی بھی آپ کیلئے شاید معمول کی ایک پریس کانفرنس ہوگی کیونکہ یہاں ہر دوسرے دن کوئی اپنی فریاد لیکر آ جاتا ہے مگر میرے لیے یہ لمحات کسی بھی طرح معمول کی طرح نہیں بلکہ زندگی اور موت کے درمیان کشمکش کی صورتحال ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں شاید ایک ایسی مقام پر آ کھڑی ہو گئی ہوں جس کا میں نے زندگی میں تصور ہی نہیں کیا تھا اور اب جب یہ قیامت مجھ پر آ گئی ہے تو میں کسی بھی فیصلہ کرنے سے بھی قاصر ہوں اس لیے آج آپ سے مخاطب ہوکر اعلیٰ حکام سے اپنی اور اپنے بچوں کی مستقبل کا سوال لیکر یہاں پہنچا ہوں۔
انکا کہنا تھا کہ 11 فروری کی رات میری زندگی کی سب سے دردناک ترین رات تھی جب ملک کے سیکورٹی اداروں نے منگچر میں گھر پر دستک دیتے ہوئے میرے شوہر جو پیشے کے لحاظ سے ایک سرکاری استاد اور اس ملک کا ایک نوکر ہے انہیں میری آنکھوں کے سامنے جبری طور پر لاپتہ کیا گیا، جس وقت انہیں لے جانے آئے تھے اُس وقت میں امید سے تھی ۔لیکن اپنے شوہر کو اپنی آنکھوں سے جبری طور پر گمشدہ ہوتے دیکھ کر میں نے منت و فریادیں کیں۔ اپنے پیٹ کے نومولود بچے کا واستہ دیا مگر انہیں ہم پر کچھ بھی رحم نہیں آیا اور بجائے میری اس حالت پر ترس کائے انہوں نے مجھے بھی شدید تشدد کا نشانہ بنایا اور میرے شوہر کو لاپتہ کرکے لے گئے۔ شدید تشدد کے باعث مجھے اسپتال کے جایا گیا جہاں میں نے اپنے بچے کو وقت سے پہلے جنم دیا۔ ایک ایسی صورتحال جو میرے لیے کسی قیامت سے کم نہیں میرے بچے کو آج پیدا ہوئے چھ دن ہوئے ہیں مگر انہیں ابھی تک نام نہیں دیا گیا ہے کیونکہ ہمارے یہاں یہ ذمہ داری والد پر ہوتا ہے۔ اس ریاست نے ہم پر ایسی قہر نازل کی ہے کہ زندگی موت سے سنگین لگ رہی ہے اور اپنے دو بچوں کے ساتھ شوہر کی گمشدگی کے بعد ہماری مستقبل کیا ہوگی مجھے خود بھی پتا نہیں۔
انہوں نے اس پریس کانفرنس کی توسط سے کہا کہ میں ریاست سے فریاد کرتی ہوں کہ اب میرے گھر میں کوئی بھی مرد نہیں بچا ہے، کفایت کا بھی والد نہیں اور اب ان نومولود بچوں کو بھی باپ کے سائے سے محروم کر دیا گیا ہے۔ میں کفایت کی اہلیہ اتنی سکت نہیں رکھتی کہ ان نومولود بچوں کی دیکھ بال اور انہیں پال سکوں کیونکہ ہماری کفالت کرنے والا کوئی بھی نہیں ہے۔ اگر ریاست مجھ سے میری زندگی اور خاندان دونوں چھین لینا چاہتی ہے تو وہ میری بچوں کی بھی ذمہ داریاں لیں میں اپنے بچوں کو عدالت کے سامنے رکھ دونگا اور ریاست انہیں پالنے کی ذمہ داری لیں کیونکہ ہم سب کا سہارہ کفایت ہے اور جب تک کفایت بازیاب نہیں ہوتا ہمارا کوئی سہارہ نہیں۔ ریاست ماں ہوتی ہے مگر ہماری ریاست ہمیں اس طرح لاچار اور مجبور کر چکی ہے کہ انسان کے سامنے موت زندگی سے زیادہ آسان لگ رہی ہے۔ میں اعلیٰ حکام سے یہاں مخاطب ہوکر کہنا چاہتی ہوں کہ اگر کفایت کو بازیاب نہیں کیا گیا تو میں مجبوری میں اپنے بچوں کو عدالت کے سامنے چھوڑ دونگا پھر ریاست اور ان کے انصاف کے ادارے ہمارا فیصلہ کر لیں۔