تماشا
تحریر: درناز رحیم بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
”کہاں جا رہے ہو” ابا نے داود کو جوتے پہنتے دیکھا تو پوچھا
”احتجاج ہے ابا پریس کلب کے سامنے۔۔۔۔۔۔ بس وہی جا رہا ہوں”
”کونسا احتجاج؟” ابا کے تاثرات یکدم بدل گئے
”ابا تھوڑا سوشل میڈیا بھی دیکھ لیا کریں”۔ وہ جوتے پہن کر اب اٹھ کھڑا ہوا
” اتنا وقت نہیں ہوتا میرے پاس”، والد نے عینک پہنا اور نظریں اخبار پر جما دیئے
” تم ہی بتا دو کونسا احتجاج ہے آج تم لوگوں کا۔ اور یہ کیا ہر روز تماشا لگایا ہوتا ہے تم لوگوں نے۔ ہر روز کوئی احتجاج ہوتا ہے تم لوگوں کا” ابا کا لہجہ سخت ہوا
”جس دن آپکو اپنے بیٹے کے لئے یہ سب کرنا پڑیگا تب یہ آپکو تماشا نہیں لگے گا ابا” اس نے افسوس سے کہا
” یہ سب کرتے پھروگے تو مجھے یقین ہے کہ ہمیں وہ دن بھی جلد دیکھنا پڑیگا جب ہم سڑکوں پر کھڑے تمہارے لئے نعرے لگائینگے اور لوگ ہمارا تماشا بنتا دیکھینگے” اخبار سے نظریں ہٹائے بغیر کہا
” مجھے دیر ہو رہی ہے ابا۔ آپکی اجازت ہو تو میں جاوں؟ ” وہ جیسے اب اس موضوع پر روز بات کر کے اکتا چکا تھا اور مزید اس موضوع پر والد سے کوئی تلخ کلامی نہیں کرنا چاہتا تھا
” ابا کو سمجھانا میرے بس کی بات نہیں ہے ” اسنے دل میں سوچا مگر کہا نہیں
” تم اجازت کب مانگتے ہو، تم تو اطلاع دے کر نکل پڑتے ہو” ابا بلکل بحث کے موڈ میں تھے
” ہماری روز اس بات پر تلخ کلامی ہو جاتی ہے ابا اور روز آپ سے بحث کر کے مجھے خوشی نہیں ملتی، دکھ ہوتا ہے۔ اسلئے میں کوشش کرتا ہوں کہ اس موضوع پر ہم کم سے کم بات کریں۔ نا آپ مجھے اپنے نظریات کا پابند کر سکتے ہیں اور نا میں آپکو اپنی بات سمجھا سکتا ہوں” اس نے احتراماً کہا
” کرتے ہی کیوں ہو وہ کام جس سے گھر میں بے سکونی پھیل جائے۔ پرائے کھینچا تانیوں میں ہاتھ ڈالنا بند کر دو اب۔ بہت ہوگیا انسانیت کے نام پر روز روز کا تماشا۔ اپنی پڑھائی کرو اور اس سب سے دور رہو۔ جس دن نقصان اٹھاوگے اس دن سمجھ آئینگے میری باتیں” ابا اب عینک کے اوپر سے اسے گور کے کہہ رہے تھے
” پرائے کھینچا تانی نہیں ہیں یہ ابا، میرے لوگ ہیں یہ۔۔۔ میرے اپنے لوگ۔ اور جس کے لئے آج احتجاج ہو رہا ہے وہ میرا دوست تھا میرا ساتھی۔ اپنوں کے لئے کر رہا ہوں جو بھی کر رہا ہوں۔ اور پڑھائی کر رہا ہوں جتنا یہ ریاست کرنے دے رہی ہے اور جب تک کرنے دیگی کرتا رہونگا۔ میرا دوست بھی پڑھائی ہی کر رہا تھا جسے اٹھا کر لے گئے یہ لوگ۔ انسانیت کے نام پر ہم تماشا نہیں کر رہے ہیں بلکہ اس ریاست نے تماشا بنایا ہوا ہے انسانیت کا، ہمارا، اور ہمارے لوگوں کا۔ انسان نہیں سمجھتے یہ ہمیں، ادنیٰ کیڑے مکوڑے سمجھتے ہیں جنہیں پیروں تلے روندا بھی جائے تو کسی کو فرق نہیں پڑتا۔ لیکن ہم کیڑے مکوڑے نہیں ہیں اور یہ بات انہیں بتانا ضروری ہے۔ ” جذباتی مگر محتاط انداز میں اس نے کہہ ڈالا جو کہنا تھا
” تمہارے یہ روز روز کے تقاریر سے مجھے کوئی غرض نہیں ہے داود۔ میں نے اپنی زندگی نوکری کرنے پیسے کمانے اور تم لوگوں کی زندگی بنانے میں گزار دی۔ میرا پورا سرمایہ میری زندگی کی کمائی تم دو بیٹے ہو۔ احسان کبھی یوں میری بات رد نہیں کرتا اور تم کبھی میری بات نہیں سنتے۔ مجھے کسی کی پرواہ نہیں ہے تمہاری پرواہ ہے۔ جنکی یہ لڑائی ہے انہی کو لڑنے دو جن کے یہ لوگ ہیں انہیں کرنے دو احتجاج” ابا اب طیش میں بولے جا رہے تھے
” اور میرا سرمایہ میری سوچ ہے، میری کمائی میرا شعور ہے ابا۔ آپکو پرواہ نہیں مگر مجھے پرواہ ہے یہ پوری قوم کی لڑائی ہے۔ یہ میرا وطن ہے اور یہ میرے لوگ ہیں۔ ” اب وہ جانے کے لئے مڑ گیا۔ ابا کو وہ روز سمجھاتا اور ابا روز اسے سخت سست سنا دیتا۔ یہ سب اب جیسے روز کا کام تھا
” جن لوگوں کے لئے خوار ہوتے پھر رہے ہو انہی کی وجہ سے کل جب تمہیں اٹھا کر لے جائینگے تب تمہارے لئے کوئی نہیں آئیگا، کوئی نہیں بولے گا۔ یہ لوگ جنہیں تم اپنا کہہ رہے ہو تمہیں پہچانے گے بھی نہیں” ابا نے غصے سے اخبار پٹخ دیا
” مجھے پرواہ نہیں۔ کوئی کھڑا نہیں ہوگا میرے لئے کوئی نہیں بولیگا تو آپ کھڑے ہونا اور آپ میرے لئے بولنا ( تلخ مسکراہٹ لبو پر در آئی) میرا دوست بھی کسی کے لئے نہیں بولتا تھا کہ اگر بولے گا تو اٹھا لیا جائیگا، مار دیا جائے گا۔ آج بہت سے لوگ احتجاج میں شامل ہو رہے ہیں اس انسان کے لئے جو کسی کے لئے نہیں بولتا تھا۔ اور یہ سب لوگ اپنا فرض سمجھ کر یہ سب کر رہے ہیں۔ میں بھی اپنا فرض نبھا رہا ہوں۔ میرا خاموش رہنا یا میرا بولنا میرے لاپتہ ہونے کی وجہ نہیں بنے گا۔۔۔ انکو وجہ نہیں چاہیے ہمیں اٹھا لے جانے یا مار دینے کے لئے” اسنے بغیر مڑے کہا
” ہاں، اٹھاو تم قوم کا ذمہ، لٹکاو اپنے سر پر تلوار اور ڈالو اپنے گلے میں پھندا۔ باپ تو دشمن ہے تمہارا اور یہ روز روز سڑکوں پر تماشا کرتے لوگ ہی تمہارے سگے ہیں” ابا چلا اٹھے۔ اسکے قدم رک گئے اور مڑ کر باپ کو دیکھا
” جی بلکل یہ تماشا کرتے لوگ ہی میرے اپنے ہیں۔ آپ کو یہ سب تماشا لگتا ہے ابا؟ آپ کو انکی تکلیف دکھائی نہیں دیتی؟ آپ کو یہ احساس نہیں ہوتا کہ جس طرح آپ کے بیٹے آپکا سرمایہ ہیں، وہ لوگ بھی کسی کا سرمایہ ہوسکتے ہیں جو اندھیر کوٹھیوں، اذیت خانوں میں قید ہیں؟ ” اسے اب غصہ چڑ رہا تھا مگر باپ کے سامنے آواز اونچھی کرنا اسے گوارا نہیں تھا
”تم سمجھتے ہو میں بے حس ہوں؟ اگر ایسا ہے تو ایسے ہی صحیح۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنے اولاد کے لئے بے حس ہونا بھی پڑتا ہے۔ ”
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں