یہ تفاوت کیوں؟ ماہتاب بلوچ

377

یہ تفاوت کیوں؟

تحریر: ماہتاب بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

ہماری قوم مرد اور خواتین میں کیوں تفاوت کرتی ہے؟ یہ تفاوت ہماری قوم میں بنیادی طور تھا اور آج تک قائم ہے، پہلی بات یہ ہیکہ خواتین اور مرد میں تفاوت نہیں ہونا چاہیے لیکن ہماری قوم خواتین کے حقوق پر بالکل بات نہیں کرتی، جو چیز خواتین سے متعلق ہو تو اس کو معیوب سمجھتے ہیں۔ ہمارے بلوچ معاشرے میں ایک لڑکی اپنی مرضی سے زندگی نہیں گزار سکتی۔ آخر کیوں؟

اس معاملے پر پوری دنیا نے ترقی کی ہے کہ مرد اور خواتین میں تضاد نہیں ہے، لیکن ہمارے معاشرے میں خواتین کو یہ کہا جاتا ہے کہ لڑکی صرف گھر کے کام کاج برتن کپڑے دھونے اور کھانا پکانے کیلئے پیدا ہوئی ہے لیکن باقی دنیا یہ سمجھتی ہے کہ خواتین بہت کچھ کرسکتے ہیں اور کر بھی رہے ہیں، باقی ممالک میں خواتین پائلٹ، انجئیرز، سائنسدان وغیرہ بنے ہیں لیکن ہمارے معاشرے میں خواتین کو صرف ٹیچرز ہونے کی حد تک اجازت ہے۔ ہمارے معاشرے میں خواتین کو گھر میں مقید کر کے آزاد وطن کی بات کرتے ہیں لیکن خواتین کے حقوق کی بات کوئی نہیں کرتا۔

ہر بلوچ کی پہلی خواہش یہ ہیکہ بلوچستان آزاد ہو یہ خواہش تمام قوم کی ہے اور رہیگا۔

بہت سے خواتین پڑھنا چاہتے ہیں بہت سے خواتین آزاد ہونا چاہتی ہیں اپنی مرضی کا زندگی بسر کرنا چاہتی ہیں ان میں سے کوئی اپنے خواہشات کو پایہ تکمیل تک نہیں پہنچا سکتی کیونکہ وہ اس کو معیوب تصور کرتے ہیں اور انکو یہ حق نہیں دیتے ہمارے معاشرے میں ہزاروں مرد حضرات ہیں جنہوں نے اپنے خواتین کو تمام حقوق سے محروم کیا ہوا ہے۔

یہاں میں چند ایسی باتیں کرنا چاہتی ہوں جو زیادہ تر ہمارے خواتین سے متعلق ہیں۔

ایسی خواتین بھی ہیں جو چاہتے ہیں کہ ہم قومی جنگِ آزادی میں حصہ لیں اور وطن کی خاطر جنگ لڑیں لیکن انکے خاندان یہ ماننے سے انکاری ہیں اور وہ یہ کہتے ہیں کہ لڑکی ہونے کی وجہ سے یہ آپ کیلئے عیب اور قباحت ہے لیکن انکو یہ جاننے کی ضرورت ہیکہ جنگ عورت اور مرد کو نہیں دیکتا بلکہ قابلیت دیکھتا ہیں ، یہ کوئی معیوب نہیں بلکہ فخر کی بات ہے۔ اگر خواتین کو اِس شعبے میں تعاون کی جائے تو خواتین بھی احسن طریقے سے جنگ لڑ سکتے ہیں۔

کردوں کی مثال ہمارے سامنے ہے جو پوری دنیا کیلئے مثالی ہیں، اگر ہم اپنی تاریخ کو دیکھیں تو ہماری عورتوں نے بھی جنگیں لڑی ہیں گل بی بی، بی بی بانڑی رند، گوھر بلوچ، ماھناز بلوچ، بی بی گنج ھاتوں، بی بی مریم، ہمارے لئے مثال ہیں، یہ ہمارے لئے تاریخی مثالیں ہیں اب بھی قومی جنگ میں ہماری خواتین کو شامل ہونا چاہیے تاکہ جنگِ آزادی کو آگے لے جاسکیں۔ ہمیں یقین ہے کہ خواتین ایسا کوئی قدم اٹھائیں ایک عورت کی جنگِ آزادی میں شمولیت سے پوری قوم اٹھ سکتی ہے ہمارے معاشرے میں عورتیں پڑھائی اور جنگِ آزادی میں خاص طور پر ضروری ہیں۔ آئیں اپنے خواتین کو حق دیں انکو جنگِ آزادی میں موقع فراہم کریں ہمارے شہداء کی سوچ و فکر و فلسفہ کو آگے لے جائیں ہمارے شہداء ہماری امیدیں ہیں۔

مرد اور خواتین دونوں آئیں جنگ کو اپنائیں، اس جنگ کو اپنا بنالیں۔ خاص طور پر خواتین اگر اس جنگ میں آنا چاہتی ہیں بلاخوف آئیں اپنی بات کریں کسی سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہم نے بہت صبر و برداشت کیا اب ہمیں کُھل کر حق کی بات کرنی چاہیے۔ ہم بلوچستان کے تمام خواتین سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ آگے آئیں ہمت کریں اپنی حقوق کی بات کریں ہم اور آپ ایک ساتھ ہوکر اپنی بات کریں ہمیں یقین ہیکہ اگر خواتین اس جنگ کا حصہ بن گئے تو یہ ایک ناقابل یقین اور جدید خطوط پر استوار قومی جنگ نئی کیفیت سے اُبھرے گا۔

مرد اور عورت میں تفاوت ختم کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ہمیں ترقی کرنی ہے ہمیں بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے مرد اور خواتین کو ایک ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے اگر ہمارے سماج نے یہ سوچ نہیں بدلا تو ہم کسی بھی شعبہ ہائے زندگی میں ترقی نہیں کرسکتے ہیں۔
ہمارے سماج میں عورتوں کیلئے علم حاصل کرنا کام کرنا اور حقوق کی جنگ لڑنا برا اور عیب تصور کیا جاتا ہے اسلئے ہم دنیا سے پیچھے ہیں۔

ایک عورت کا علم حاصل کرنا پوری ایک نسل کو تیار کرتی ہے ہمارے مرد حضرات عورتوں کو علم حاصل کرنے کی طرف راغب کریں بغیر علم کے دنیا میں کچھ بھی حاصل نہیں کرسکتے ہماری عورتوں کو پہلی فرصت میں علم حاصل کرنی کی ضرورت ہے اس کے بعد عورتوں کی جو بھی اچھی خواہش ہوگی اس کو پوری ہونے دیں ، مرد اور خواتین کا تفریق ختم ہونے کے بعد ہم ہر شعبہ ہائے زندگی میں ایک ساتھ ہوسکتے ہیں۔

بلوچستان میں بہت سے ایسے گھرانے ہیں جب انکے ہاں اگر کوئی لڑکی پیدا ہوگی تو شروع دن سے ان کیلئے کوئی منگیتر نامزد کی جاتی ہے وہ بھی عمر میں لڑکی سے کہیں بڑا بھی ہوسکتا ہے جب لڑکی شعورِ بلوغت میں پہنچ جاتی ہے اسکو علم ہوتا ہے کہ دنیا اتنی آگے جاچکی ہے اور میں پیدا ہوتے ہی بچپن سے کسی کے بندھن میں قید ہوں اور وہ خود کو پنجرے میں مقید پرندہ سمجھ کر یہ سوچتا ہیکہ کہ شادی کے بعد بھی مجھے آزاد فضاء میں زندگی گزارنا نصیب نہیں ہوگا۔

وہ پڑھنا چاہتی ہے جاب کرنا چاہتی ہے ابھی اِس عمر میں شادی نہیں کرنا چاہتی لیکن انکی کوئی نہیں سُنتا اسکی مرضی کے بغیر زبردستی تیرہ یا چودہ سال کی عمر میں اسکو شادی کے بندھن میں قید کر دیا جاتا ہے یہ زورآوری کے ساتھ گناہ بھی ہے۔

یہ جاہلانہ رویہ ختم کرنا ہوگا کیونکہ اپنے بچی کی زندگی کو اپنے ہاتھوں سے تباہ کرنا اسکو جاہل بنانا عقل مندی نہیں شادی کے بعد اسکے بال بچے پیدا ہونگے وہ بھی اِس جیسے جاہلیت ہی میں پَلے بڑے ہوکر علم کی روشنی سے محروم ہوکر ہماری پوری نسل جاہلیت کا شکار ہوکر رہیگا۔
اسلام میں بھی یہ جائز نہیں کہ لڑکی کی مرضی کے بغیر زبردستی اس پر زور دیا جائے لڑکی کا راضی ہونا لازمی ہے۔

بہت سے لوگ اپنے لڑکیوں کو بارہویں جماعت تک تعلیم دیکر انکو جاب کرنے کی اجازت نہیں دیتے اسکی شادی کرائی جاتی ہے اور یہ کہا جاتا ہے کہ تم لڑکی ہونے کے ناتے جاب نہیں کرسکتی تو پھر اسکے پڑھنے اور علم حاصل کرنے کا کیا مقصد؟ آخر کیوں؟

کونسی کتاب میں لکھا ہے کہ لڑکی صرف شادی کیلئے پیدا کی گئی ہے؟
علم حاصل کرنا، جنگ کرنا ، کاروبار میں حصہ لینا لڑکی کو کیوں اجازت نہیں؟

ہ دین اسلام نے عورتوں کو بہت سے حقوق دیے ہیں لیکن ہماری مخلوق نے انکو سب حقوق سے محروم کیا ہوا ہے دین اسلام میں لڑکیوں کو اپنی تعلیم حاصل کرنے کا پورا حق حاصل ہے اپنی مرضی کی شادی کرنے کا حق اپنی زندگی گزارنے کا حق لوگ اسلام کا نام لیتے ہیں لیکن خود نہیں جانتے کہ اسلام نے عورت کو تمام حقوق دیے ہیں۔

ہمارے معاشرے میں بہت سے شوہر اپنی بیوی پر ظلم و جبر کرکے انکو مارتے پیٹتے ہیں لیکن والدین لڑکی کو طلاق لینے سے منع کرتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ یہ بہت بڑی بدنامی ہے اول الزکر والدین لڑکی پر ہونے والے ظلم پر خاموشی اختیار کرتے ہیں اور اسکو طلاق لینے بھی نہیں دیتے جبکہ اسلام میں بیوی اپنی مرضی سے طلاق لینے کا حق بھی رکھتی ہے۔

انکا یہ ماننا ہیکہ لڑکی اپنے سسرال میں جتنا ظلم و جبر برداشت کرسکتی ہے کرلیں لیکن طلاق کا نام نہ لیں۔ایسا کیوں؟

ہماری گناہ کیا ہیکہ ہم بغیر وجہ اتنی ظلم و زبردستی برداشت کریں۔
مار کھائیں لیکن خاموش رہیں آخر کیوں ؟ ہر لڑکی اس جبر کا شکار ہے
آجیں اپنے خوف کو ختم کرکے بات کریں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں