چھ نکات اورپی ڈی ایم
تحریر: اعظم الفت بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
جب پی ڈی ایم میں پیپلز پارٹی آخری کیل ٹھونک رہی تھی تو اسی دوران سرداراختر مینگل پی ڈی ایم کو بچانے نکلے ، بی این پی کی قیادت نے جمہوریت کے لبادے میں پی ڈی ایم کو بچانے کی کوشش جاری رکھی۔ پی ڈی ایم مرحومہ کی عمر بمشکل دوسال سے زائد نہیں رہی ، جیسی لنگڑی لولی جمہوریت اسی طرز کی پی ڈی ایم۔ جیسے سردارصاحب نے پی ٹی آئی کی حکومت بنانے اوراتحادی بننے کےلئے 6 نکات رکھے تھے یہ وہی 6 نکات ہیں جب 2012 میں اختر مینگل نے سپریم کورٹ میں پیش کیے ، اسلئے بھی پیش کئے کہ اس دوران اقوام متحدہ کی خصوصی ٹیم بلوچستان کی تباہ صورتحال جانچنے آئی تھی۔
پی ٹی آئی کی حکومت کی اتحادی بن کر بی این پی ڈھائی سال تک پی ٹی آئی کو سپورٹ کرتی رہی، بہت سے تلخ تجربات سے گزرنے کے باوجود بلوچ قوم پرستی اور جمہوری طرز پرسیاست کرنے والی جماعتیں اپنے اناووں کے خول اور عداوت کی لکیروں سے باھر نہ نکل سکے. جس کا خمیازہ نہ صرف خود یہ سیاسی جماعتیں بھگت رہے ہیں بلکہ حقیقی نمائندگی سے محروم عوام بھی اٹھارہے ہیں.
گزشتہ روز طویل عرصہ کے بعد بی این پی کی مرکزی کمیٹی کا اجلاس کوئٹہ میں ہوااجلاس کے اختتام پرپریس کو بریفنگ میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ و رکن قومی اسمبلی سردار اختر جان مینگل نے کہا کہ سیندک سے کتنا سونا، تانبا، سلور نکالا گیا اسکا کوئی اندازہ نہیں ہے بلوچستان کو صرف 2فیصد رائلٹی کا ایک پرچہ تھما دیا جاتا ہے اسی طرح صوبے سے نکلنے والی گیس کا بھی کوئی حساب کتاب نہیں ہے وسائل پر سوال کرنا غداری کے زمرے میں آتا ہے، الیکشن کرانے ،تاریخ دینے والے ہم ہوتے تو ٹھیک ہوتا مگر الیکشن کروانے والے اور حالات ناخوشگوار کرنے والوں کے سامنے ہم بے بس ہیں۔
سردارمینگل کہتے ہیں کہ وہ پاکستان تحریک انصاف اور جام کمال کی حکومت کو سپورٹ کرنے کے جرم میں شریک ہے لیکن قدوس بزنجو کی حمایت میں شریک جرم نہیں ،سردارمینگل صاحب کو گوش گوارہوں کہ آپ کی پارٹی اورآپ کے پارٹی کے اراکین اسمبلی نے نہ صرف قدوس بزنجو کوسپورٹ کیا بلکہ قدوس بزنجو کی حکومت کی تشکیل میں سب سے زیادہ بی این پی کے ایم پی ایز پیش پیش تھے اورآج بھی تمام حکومتی مراعات آپ کے ایم پی ایز لے رہے ہیں مرکز میں بی این پی، پی ٹی آئی سے مراعات لیتے رہے اوربلوچستان میں آپ کے ایم پی ایز کبھی جام کمال کو بلیک میل کرکے اورکبھی قدوس بزنجو کی حمایت کرکے مزے سے فرینڈلی اپوزیشن کا حصہ ہیں ۔ بی این پی کا ایک ایم پی اے تو وزیراعلیٰ ہاوس میں ڈیرے ڈالا ہوا ہے۔
آج بلوچ بحثیت قوم اس خطے میں بدترین دور سے گذرہاہے، بلوچ مسئلہ حقوق سے بڑھ کر اپنے دائمی و مستقل وجود کو بچانا ہے، جوکہ شدید خطرات سے دوچار ہے، مگر بلوچستان کی قوم پرست پارٹیاں اپنی بالاتری کو برقرار رکھنے کیلئے کبھی جذباتی نعروں کا سہارہ لے کر سیاسی شعور و علم سے محروم بلوچوں کو اپنے ہمدرد بنانے کی کوشش کرتے ہیں، تو کبھی اسلام آباد کی حکومت سے 6 نکات کی اصلیت چھپاکر اپنے لئے حکومتی مراعات سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔
جنابِ اس قیادت سے کوئی سوال کرنے کی جرت کرے کہ آج آپ جس (PDM) کا حصّہ بن کر عمرانی حکومت کو روالپنڈی کی پیداوار قرار دے رہے ہیں کل آپ اسی عمران نیازی سے لاپتہ بلوچوں کے بازیابی کا خواہاں تھے۔
قوم پرست لیڈرزسرزمین، ساحل وسائل کا نعرہ بلند کرکے بلوچ وطن کے تحفظ کا قسم کھاتے ہیں، تو دوسری جانب بلوچ وطن کو برابری کی بنیاد پر تقسیم کرکے فارمولے پر عمل پیرا محمود خان اچکزئی کا دائمی دوست بن کر سیاسی مفادات کے لئے قومی مفادات کا سودہ کرتے ہیں بی این پی ایک طرف اسلام آباد کی اسمبلی سے لے کر بلوچستان اسمبلی تک، الیکشن میں اپنا انتخابی منشور میں اس بات کو افغان مہاجرین کو نکال دو کا نعرہ مستانہ بلند کرتے ہیں افغان مہاجرین کی موجودگی میں مردم شماری سمیت ہر اس عمل کا بائیکاٹ کا ڈرامہ بھی رچایا گیا ۔
مگر محمود خان اورجمعیت سے یاری نبھانے کی خواہش مند قوم پرست پارٹیاں محمودی پارٹی اور جمعیت نے لاکھوں افغان مہاجرین کو بلوچ دھرتی پر شناختی کارڈ و لوکل ڈومسائل بنا کر بلا روک ٹوک جاری کروایا،کیا یہ یاری بلوچ قوم کے مفاد میں ہے ؟کیا اس بات سے انکار کیاجاسکتاہے کہ بی این پی مینگل کا طریقہ عمل اندرونی طورپر غیرجمہوری ہے۔؟
دوسری جانب پیپلز پارٹی زرداری گروپ کسی طرح بھی اپنے بیٹے کو وزیراعظم بنانے کےلئے ہر طرح سے جھک چکی ہے ،چلیں فرض کر لیتے ہیں زرداری کے سمجھوتوں اور جگاڑ کے نتیجے میں بلاول آئندہ وزیراعظم بن جاتا ہے۔ سادہ اکثریت بھی آپکے پاس نہیں ہوگی چھوٹی جماعتوں کو ملا کر حکومت بنانی ہوگی۔ خارجہ پالیسی اور تمام اندرونی پالیسیوں پر فوج کا کنٹرول برقرار ہوگا۔ نیب، عدلیہ اور میڈیا اسٹبلشمنٹ کے اشاروں پر روزانہ آپکی تذلیل کر رہا ہوگا۔ اپوزیشن آپکی چولیں ہلا رہی ہوگی۔ مہنگائی کا جن قابو سے باہر ہے، معیشت نیچے کی طرف جارہی ہے۔ قرضوں کا بوجھ بڑھتا چلا جارہا ہے۔ ٹیکس آمدنی کا ستر فیصد قرضوں اور سود کی ادائیگی میں چلا جائے گا باقی فوج لے جائے گی۔ ایسی صورت حال میں ملک کی سمت درست کرنے اور عوام کو ریلیف دینے کیلئے نہ ہی آپکے پاس کوئی اختیار ہوگا اور نہ ہی سکت۔ زیادہ مناسب ہوتا کہ ایک مشترکہ جدوجہد کے ذریعے کچھ اختیارات حاصل کر لئے جاتے۔ بہرحال اگر آپ نے کنویں میں چھلانگ لگانے کا فیصلہ کر ہی لیا ہے تو آپکے حق میں صرف دعا ہی کی جا سکتی ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں