ٹی ٹی پی کے ساتھ کوئی جنگ بندی نہیں، ہم حالت جنگ میں ہیں: پاکستان فوج

328
سکرین گریب

پاکستان فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار کا کہنا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ جنگ بندی ختم ہو چکی ہے اور ان کے خلاف آپریشن جاری ہے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار نے بدھ کو ایک پریس کانفرنس کی جس کا مقصد گذشتہ سال میں ہونے والی واقعات، سکیورٹی صورتحال اور دیگر معاملات کے حوالے سے ذرائع ابلاغ کو آگاہ کرنا تھا۔

پریس کانفرنس کے دوران میجر جنرل بابر افتخار سے تحریک طالبان پاکستان کے حوالے سے سوال کیا گیا جس پر ان کا کہنا تھا کہ اس وقت ٹی ٹی پی کے ساتھ کسی قسم کی کوئی بات چیت نہیں ہو رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’ٹی ٹی پی کے ساتھ جنگ بندی کا خاتمہ نو دسمبر کو ہو گیا تھا اور اب ان کے خلاف آپریشن جاری ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ٹی ٹی پی کے ساتھ بات چیت کا سلسلہ رکا ہوا ہے، اور آپریشن جاری ہے۔ جنگ بندی نہیں ہے،  ہم حالت جنگ میں ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’ان سے موجودہ افغان حکومت کی درخواست پر مذاکرات کا آغاز کیا گیا تھا، کیونکہ 15 اگست کے بعد پاکستان نے افغانستان کی نئی عبوری حکومت سے کہا تھا کہ وہ ٹی ٹی پی کو پاکستان خلاف افغان سرزمین استعمال نہیں کرنے دیں گے۔‘

’اس تناظر میں انہوں نے (افغان حکومت) یہ آپشن دیا تھا کہ ان سے (ٹی ٹی پی) سے مذاکرات کیے جائیں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’جو شرائط رکھی گئیں تھیں وہ تاحال پوری نہیں ہوئی ہیں۔ ٹی ٹی پی کے اپنے اندرونی مسائل بھی ہیں اور کچھ ایسی شرائط تھیں جن پر ہماری طرف سے کوئی سمجھوتا نہیں ہو سکتا۔‘

پریس کانفرنس کے دوران نواز شریف کی واپسی سے متعلق مبینہ ڈیل کے حوالے سے سوال پر میجر جنرل بابر افتخار کا کہنا تھا کہ ’اس معاملے پر صرف اتنا کہوں گا کہ یہ سب قیاس آرائیاں ہیں۔‘

ڈی جی آئی ایس پی آر نے پریس کانفرنس کے دوران پاکستان افغان سرحد پر لگائی جانے والی باڑ کے حوالے سے بھی بات کی اور بتایا کہ پاک افغان سرحد پر 94 فیصد جبکہ ایران کے ساتھ سرحد پر 71 فیصد باڑ کا کام مکمل ہو چکا ہے۔

گذشتہ دنوں افغانستان کے ساتھ سرحد پر پیش آنے والے واقعے پر انہوں نے کہا کہ ’وہ مقامی نوعیت کا واقعہ ہے جسے ٹھیک کر لیا گیا ہے۔‘

انہوں نے سرحد پر لگائی جانے والی باڑ کے حوالے سے مزید کہا کہ ’یہ امن کی باڑ ہے، رہے گی اور مکمل بھی ہوگی۔‘ انہوں نے اسی حوالے سے مزید کہا کہ ’باڑ کا مقصد لوگوں کو تقسیم کرنا نہیں بلکہ محفوظ بنانا ہے۔‘