میں نیشنل ازم پہ کاربند کیوں ہوں ؟ (حصہ چہارم)
تحریر: مہر جان
دی بلوچستان پوسٹ
بھوک اور شناخت دو بنیادی و فطری (حیوانی جبلت /تعقلی) ضرورتیں ہیں جہاں اول الذکر کے لیے طبقات اور مؤخرالذکر کے لیے قومیں لڑتی آرہی ہیں۔ اقوام کی بنیاد شناخت جبکہ طبقات کی بنیاد بھوک و افلاس ہوا کرتی ہے۔ یہی شناخت قوم سے بڑھ کر تہذیبوں تک آتی ہے، جہاں محکوم اقوام اپنی شناخت و روایات کو اپنی دانست اور اس کی فطرت کے مطابق حاکم اقوام سے محفوظ کرنے کی تگ و دو کرتی رہتی ہیں۔ ھیگل نے جس طرح تاریخ کو شناخت کی جنگ کی تاریخ قرار دیا ہے اسی طرح سموہیل بی ھنٹگٹن نے مستقبل میں بڑے تصادم کی وجہ شناخت کو قرار دیا ہے۔ چاہے ھیگل کی ماضی کے حوالے سے شناخت کی جنگ کا نظریہ ہو یا ھنٹگٹن کا مستقبل کے حوالے سے تصادم یا مارکس و اینگلز کا کمیونسٹ مینی فیسٹو میں یہ کہنا کہ تاریخ طبقات کی جنگ کی تاریخ ہے، ان تمام تھیوریز کو تاریخی واقعات ومستقبل کے امکانات کے تناظر میں دیکھنا ضروری ہے، کہ یہ تھیوریز فقط کھوکھلے دعوے یا ہوا میں تیر چلانے کے مترادف ہیں یا واقعی تاریخی حقائق ومستقبل کے امکانات ان تھیوریز کو کسی حد تک حقیقت کا رُوپ دے سکتے ہیں۔ تاریخ میں شناخت و طبقاتی جنگیں تسلسل میں چلتی آرہی ہیں ، جنھیں جدلیاتی تناظر میں دیکھنا لازمی امر ہے۔ طبقات یا شناخت کو مابعدالطبیعاتی تناظر میں دیکھ کر کسی ایک کو بھی رد کرنا فطری اصولوں کے خلاف ہے۔ طبقاتی تاریخ کی جدوجہد اپنی جگہ لیکن تاریخی واقعات مثلاً یوگنڈا میں طبقے کو شناخت کا نام دے کر اس کے لیے جدوجہد کرنا ، فلسطین میں کمیونسٹ پارٹی کا عربائزیشن ، کرد سوشلسٹ تنظیم کا تمام طبقات (جاگیردار جنہیں آغا کہا جاتا تھا)کو اپنی جہد میں شامل کرنا ، فرانز فینن کا یہ کہنا کہ میں سیاہ فام(شناخت) ہوں اسی لیے غریب(طبقہ) ہوں اور سب سے بڑھ کر بالشویک انقلاب میں جو تین بڑے مسئلے درپیش ہوئے، وہ اول علاقائی صورتحال ،دوم سرمایہ دارانہ ممالک کی مداخلت اور تیسرا زار روس کے اندر غیر روسیوں کے قومی سوال(شناخت) کے تھے، پہلے دو مسائل پر بڑی حد تک قابو پالیا گیا لیکن قومی سوال پر سوویت یونین ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوا،جس پہ بابا مری اکثر کہا کرتے تھے کہ شناخت اس حوالے سے حاوی رہی۔
اسی طرح “قومیں جنگیں کیوں لڑتی ہیں؟”کے نام سے جو کتاب لکھی گئی اس میں بجاۓ معاش یا طاقت کو بنیاد بنانے کی مصنف نے “خوف” کو جنگ کی بنیاد قرار دیاہے کہ قومیں اپنی منصوبہ بندی (پالیسیز) خوف کی بنیاد پہ بناتی ہیں اس لیے لازمی طور پہ جنگوں کی طرف ان کو جانا پڑتا ہے،بلوچ قوم کا خوف اس وقت اس کی شناخت چھن جانے کا خوف ہے اور اسی شناخت کو بچانے کے لیے مزاحمت یعنی جنگ کی راہ اپنائی ہے۔ مزاحمت کالونائزر و کالونائزڈ کی تفریق کی لائن کو بہت حد تک آشکار کرتی ہے جبکہ سمجھوتہ اس لائن کو مدھم کرکے شناخت کو طاقتور کی شناخت میں مدغم کردیتا ہے۔
یہاں یہ بات ذہن نشین رہے جب بات شناخت (قومی جہد) اور طبقہ (بھوک ) کی ہو تو طبقات کی جنگ میں عوام کی بات کی جاتی ہے جس کے بطن میں انقلاب پنہاں ہوتا ہے جبکہ شناخت کی جنگ میں قوم کی بات کی جاتی ہے جس میں آذادی پنہاں ہوتی ہے۔ اسی بنیاد پہ یہ قول ہمیشہ دہرایا جاتا ہے کہ “عوام حقوق مانگتے ہیں اور قومیں آذادی” جہاں انقلاب سے پہلے کالونائزر کے خلاف شناخت کی بنیاد پہ قومی آذادی کی جنگ لڑی جاتی ہے، آذادی کی جہد میں رجحانات دو طرفہ ہو سکتے ہیں سوشل ازم یا کیپیٹل ازم ، لیکن کسی بھی نظریاتی رجحان کی وجہ سے قومی آذادی کی جہد میں کسی بھی طبقہ کی نفی نہیں کی جا سکتی۔ لینن جس کا یہ ماننا تھا کہ قومی جہد کے لیے بغیر کسی لیت لعل و حجت بازی ( لیڈرشپ پروگریسیو ہے یا نان پروگریسیو )کے حاکم اقوام کے سوشلسٹ اپنا کردار محکوم اقوام کی قومی جہد میں ادا کریں۔ بابا مری جو بلوچستان کا مستقبل سوشل ازم میں دیکھنا چاہ رہے تھے دونوں قائدین اس حوالے سے بہت ہی واضح موقف رکھتے تھے جیسا کہ کرد کمیونسٹ تحریک کی مثال پیش کی گئی جہاں سوشل ازم کی جنگ میں بھی کرد جاگیرداروں (آغا) کی نفی نہیں کی گئی چہ جائیکہ قومی آزادی کی جہد میں کسی بھی طبقے کو جو آذادی پسند ہو انہیں فقط طبقاتی بنیاد پر کسی بھی قسم کے نظریاتی رجحان کی وجہ سے مائنس سمجھا جاۓ ، ہر ایک کا عمل ، کردار چاہے وہ کسی بھی طبقے سے ہو تاریخ کا آئینہ دار ہوتا ہے ۔ بلوچ قومی جہد کی تاریخ میں یہ بلکل آشکار ہے جہاں تمام طبقات نے قومی آزادی کی جہد میں اپنا کردار نبھایا ہے۔ جنرل مشرف کا یہ واضح بیان کہ تین سردار میرے مخالف و تہتر سردار میرے حق میں ہیں اس بلوچ قومی جہد تاریخ کی ایک شاندار مثال ہے۔ قومی جہد میں تمام طبقات کی شمولیت کی وجہ ریاست کی وہ بربریت و جبر ہے جس کی زد میں “شناخت “ کی بنیاد پہ تمام طبقات آتے ہیں ،لیکن اس کے برعکس جو ریاست کے وفادار ہوتے ہی چاہےانکاتعلق کسی بھی طبقے سے ہوں نوازے جاتے ہیں۔
اب اس پورے کالوناہزیشن کے مرحلے میں ریاست کا جبر پوری قوم پہ ہوتی ہے اس حوالے سے شناخت ان کا پہلا ہدف ہوتا ہے اس کے لیے جنگ میں ریاست (کالونائزر ) کے پاس جو سب سے بڑا ہتھیار کالونائزڈ کے خلاف ہوتا ہے وہ “کامن سینس” کی بناوٹ ہے ،یعنی آپ کی کامن سینس کو اس طرح بنایا جاتا ہے کہ آپ کی شناخت سے لے کر ثقافت (جس میں مزاحمت کا عنصر بطور خاص شامل ہے ) تک کو اس طرح بگاڑ دیا جاتا ہے کہ آپ کا کامن سینس اس سارے بگاڑ کو لاشعوری طور پہ قبول کر چکا ہوتا ہے اور یہی دشمن کی سب سے بڑی فتح ہے کہ جب وہ کسی محکوم کے کامن سینس پہ اجارہ داری حاصل کرتا ہے تب محکوم کی شناخت اس کی اپنی نہیں رہتی۔ یعنی آپ کا کامن سینس آقا کی دی ہوئی شناخت کو قبول کرچکی ہوتی ہے آپ کی ثقافت آپ کی نہیں رہتی کیونکہ آپ ذہنی طور پہ اپنی ثقافت (یہاں ثقافت سے مراد فقط روایات نہیں بلکہ غیر مرئی اقدار بھی ہیں) کو کم تر سمجھنے لگتے ہیں۔ آپ کو آفاقیت کی دوڑ میں گھسیٹنے کے لیے شب و روز ریاستی دانشور پورے تن من دھن سے لگے رہتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ آفاقیت ریلیٹیوازم کے بغیر ممکن نہیں اور آپ نہ چاہتے ہوۓ بھی ذہنی طور پر اس دوڑ کا حصہ ہوتے ہیں۔ اس نفسیاتی جنگ کا حملہ دشمن کی طرف سے اس قدر شدید ہوتا ہے کہ آپ کی مزاحمت کو بھی اپنے اثر میں لے لیتا ہے ،سوشل میڈیا کی بدولت دشمن کے لئے یہ اور بھی آساں ہوگیا ہے۔ اس ساری کہانی میں آقا کے نصاب سے لے کر میڈیا ،تعلیمی ادارے ،سول ادارے جنہیں فرینکفرٹ مکتبہء فکر کے مفکر گرامشی نے پولیٹکل سوسائٹی اور سول سوسائٹی کا نام دیا ہے جو کامن سینس کی بناوٹ میں شریک کار ہوتے ہیں۔ بعد میں اس پہ نوم چومسکی اور دوسرے لکھاریوں نے مینو فیکچرنگ کامن سینس کے حوالے سے بہت کچھ لکھا ہے اور یہی اصل جنگ ہوتی ہے کہ آپ اب اپنی جنگ اپنی ثقافت (ایڈورڈ سعید) و دانست (عقل) کی بجاۓ آقا کو نقل کرتے ہوۓ لڑ رہے ہوتے ہیں اور اس کا آپ کو شعور تک نہیں ہوتا ۔
کامن سینس کی بناوٹ کے لیے بقول گرامشی دو اصول اپناۓ جاتے ہیں۔ پولیٹکل سوسائٹی کا اصول جس میں وہ سارے ریاستی ادارے آتے ہیں جو بزورِ شمشیر احکامات لاگو کرکے رضامندی حاصل کر سکیں جبکہ دوسرا اصول سول سوسائٹی ہے جس میں نصاب سے لے کر درسگاہیں اور امن کے پیروکار نمائندے جو بغیر کسی ہتھیار کے محکوم کی رضامندی کو سمجھوتے کی صورت میں حاصل کرلیتی ہے، یعنی محکوم سے اُن کی احساس ہی چھین لی جاتی کہ وہ محکوم ہے۔ یہ ایک غیر مرئی (نہ نظر آنے والی ) طاقت (اجارہ داری) ہے جو محکوم کئی ذہنوں کو شکست خوردہ بنا کر انہیں سمجھوتہ کی راہ پہ ڈال دیتا ہے ،اب انہیں احساس تک نہیں ہوتا کہ وہ محکوم ہیں جبکہ بقول ھیگل محکومی کا احساس ہی دانائ کی طرف پہلا قدم ہے ، اور جنہیں مزاحمت کی بدولت تھوڑا بہت احساس ہوتا ہے ان کا بھی مطمعِ نظر آزادی کی بجائے کچھ اور ہوتا ہے۔ اب فکری اجتماع کی بجاۓ ہجوم زیادہ دلکش نظر آنے لگتے ہیں۔ جو جتنا بڑا مجمع لگانے میں کامیاب ہوتا ہے مستقلیت کی بجائے وقتی طور پہ انہیں ہی بڑا نمائندہ سمجھا جاتا ہے۔ اب محکوم کو یہ باور کرانے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے کہ مزاحمت کی راہیں مسدود ہو چکی ہے ہیومن ازم (متھ) کے نام پہ جو اپنی شناخت کے لیے لڑ رہا ہوتا ہے انہیں جنگجو اور نسل پرست کے طور پہ پیش کیا جاتا ہے ، اور یہ ٹیگ لگانے کے لیے محکوم اقوام کے مینیو فیکچرڈ کامن سینس کے حامل بندے موجود ہوتے جو ریاستی کالونیل فاشزم کو چاک کرنے کی بجاۓ قوم پرستوں پہ نسل پرستی کا ٹیگ لگا کر محضوظ ہوتے ہیں، دشمن ککی اس نفسیاتی حملہ کی وجہ سے محکوم اپنا مقدمہ جارحانہ رویے کی اب بجاۓ دفاعی انداز میں لڑتا ہے۔
سفارتکاری کے میدان میں بھی اس قدر پر اثر نہیں ہوتے کہ وہ اپنا مقدمہ مظبوط دلائل کے ساتھ ، اکیڈمک انداز میں لڑ سکیں ،کیونکہ ان کا کامن سینس لاشعوری طور پہ وہ سب کچھ قبول کرچکی ہوتی ہے جو دشمن چاہتا تھا اور چاھتا ہے۔
(جاری ہے)
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں