میں نیشنل ازم پہ کاربند کیوں ہوں؟ – مہر جان

507

میں نیشنل ازم پہ کاربند کیوں ہوں؟

تحریر: مہر جان

دی بلوچستان پوسٹ

مینیوفیکچرڈ کامن سینس کا ڈومین فلسفہ میں لسانیات ہے۔ لسانیات کا تعلق ذہن سے ہے لیکن بعض مفکرین لسانیات کو اس قدر اہمیت نہیں دیتے ، وہ اسے شاہد لفظوں کا کھیل ، آسمانوں سے اوپر کی بات سمجھتے ہیں لیکن دوسری طرف بعض مفکرین بشمول گرامشی جو کہ خود اک ماہر لسان تھے فوک لور (لسانیت) کو کامن سینس کی فلاسفی کہتے ہیں ، اور بعض ماہر لسانیات لسان کو ایک ایسی چٹان سے تشبیہہ دیتے ہیں جسکی باریکیوں میں جاکر کوئی جیولوجسٹ تو کوئی سائنٹسٹ تو کوئ فلاسفر بھی بن سکتا ہے ، بہر حال پوسٹ کالونیل ڈسکورس میں لسانیات سے مفر ممکن نہیں ، کامن سینس پہ اہل لسان نے بہت کچھ لکھا ہے کہ کسی بھی حاکم قوم کی اجارہ داری لسانیات کے دائرہ کار میں رہ کر کس قدر محکوم کی کامن سینس کی بناوٹ کا سبب بنتی ہے ،اس پورے تناظر یعنی کامن سینس کی مصنوعی تشکیل میں کلچر(تہذیب ) کیا اہمیت اختیار کرتا ہے یہ بنیادی نقطہ جاننے کی اشد ضرورت ہے ، زبان کی دقیق مباحث سے ہٹ کر اک سادہ فہم مثال دینے کی کوشش کروں گا تاکہ دوستوں پہ یہ بات کھل کر واضح ہوجاۓ کہ زبان اور ذہن کا آپس میں کیا تعلق ہے اور یہ کامن سینس کے لیے کس قدر اہمیت کا حامل ہے۔

کہا جاتا ہے کہ لسانیات میں علامات کے بغیر سوچنا محال ہے ، اب علامت دو اجزاء میں منقسم ہے ایک کو سگنیفائیر اور دوسری کو سگنفاہیڈ کہا جاتا ہے ، یعنی جب کوئی شخص اک لفظ ادا کرتا ہے اس کی ادائیگی کو سگنیفاہیر کہا جاتا ہے اس لفظ سے جو تصور ذہن میں پیدا ہوتا ہے اسے سگنیفاہیڈ کہا جاتا ہے ، مینیوفیکچرڈ کامن سینس میں سیگنیفاہیڈ (تصور) پہ کنٹرول کالونائزر کا ہوتا ہے آپ کو علامات کے ذریعے ذہنی طور پہ اتنا پست کیا جاتا ہے کہ آپ چمچ و کانٹے سے کھانا کھانے کو (علامات) اعلیٰ تہذیب سمجھنے لگتے ہیں ، انگریزی بولنے کو علم اور کسی بھی لکھاری کے چار پانچ اصطلاحات و مصنفین کے ناموں سے مرعوب ہوکر انہیں بڑا دانشور سمجھتے ہیں ،کالوناہزڈ کے لکھاری خاص طور پہ مرعوب ہوتے ہیں حالانکہ ایسا کچھ نہیں ہے بس یہ سارابساط پہ رچایا گیا کھیل ہے اور آپ کو پتہ تک چلنے نہیں دیا جاتا کہ اجارہ داری کس طرح کامن سینس کو مینوفیکچر کررہا ہوتا ہے ، یعنی آپ کی قومی شناخت، قومی تہذیب، قومی شعور پہ پہلا وار ہوتا ہے جبکہ بقول فینن “قومی تہذیب آپ کی پناہ گاہ ہوتی ہے” گبین جیسا مورخ جو ماہر تہذیب ہےاس امر پہ متفق ہے کہ کسی بھی قوم کی سیاسی شناخت چھن جانے کے بعد اس قوم کی تہذیب اس قوم کی محافظ و پناہ گاہ ہے۔

جس طرح کالونائزر اجارہ داری (غیر مرئی قوت) کی بدولت پولیٹکل و سول سوسائٹی کے ذریعے قومی تہذیب کے مورچہ میں نقب زن ہوتا ہے اسی طرح قومی تہذیب و قومی شعور کے مورچہ میں رہنے والا ہر ایک کالوناہزر کے خلاف مزاحمتکار ہوتا ہے ، کیونکہ کسی بھی قوم میں قومیت کی اجارہ داری فطری و تاریخی عوامل کے ذریعے کم و پیش موجود ہوتی ہے گرامشی اسے سپر اسٹریکچر کا نام دیتا ہے جس کے ذریعے دشمن کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے گر کہیں یہ اجارہ داری وجود نہ رکھتی ہو اس کے لیے گرامشی کمیونسٹ پولیٹکل پارٹی کو “ماڈرن پرنس”بننے کا مشورہ تک دیتا ہے کہ میکاولین طرز اختیار کرکے یہ اجارہ داری پولیٹکل و سول سوسائٹی کی بدولت حاصل کی جاۓ کیونکہ گرامشی کے لیے فقط اقتصادیات کی جدلیات جسے بیس اسٹرکچر (ذرائع پیداوار ) کہا جاتا ہے بنیاد نہیں ، کیونکہ ان کی آنکھوں کے سامنے شکست و ریخت کا عمل جاری و ساری رہتا ہے ، یہ نقطہ گرامشی اک طرح سے لینن سے اخذ کرتا ہے ، جبکہ آرتھوڈکس مارکسسٹ بیس اسٹریکچر کو بنیاد مانتے ہیں ، مارکس اسی بیس اسٹرکچر کی بنیاد پہ کالوناہزڈ ہندوستان کا مقدمہ لڑ رہا تھا کہ سماجی تبدیلی (ذرائع پیدوار کی تبدیلی اور پہ پر ولتاریہ کا کنٹرول ) سے ڈی کالوناہزیشن ممکن ہوگی کیونکہ مارکس سماج کی ترقی پہ یقین رکھتے تھے اور سماج کی ترقی میں بیس اسٹرکچر کو بنیاد مانتے تھے جبکہ معاملہ اس کے برعکس نکلا ، جسکا احساس بعد میں مارکس کو خود بھی ہوا کیونکہ آج یورپ کے چمک دمک میں ہندوستان کا خون و سرمایہ شامل ہے اور ڈی کالوناہزیشن یورپ کی اپنی مجبوری کے باعث بنا۔

یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ لینن و گرامشی کے لیے فقط اقتصادیات کا میدان اہم نہیں بلکہ کلچر کی اجارہ داری بھی اہم ترین ہے اور اس کے بنانے کے لیے گرامشی رضامندی اور فورس دونوں پہ یقین رکھتے ہیں جبکہ دوسری طرف یہاں فطری و تاریخی طور سپر اسٹرکچر (نیشنل ازم )بنا ہوا ہے اور اسی سپر اسٹرکچر کی بنیاد آج تک مزاحمت مختلف مراحل میں جاری و ساری ہے۔ آج ریاستی سپر اسٹرکچر کو جس مزاحمت کا سامنا ہے وہ ہمارا قومی شعور و قومی تہذیب ہے جو مختلف تاریخی عوامل سے گذر کر قومی روح کو پروان چڑھا رہا ہے۔

بلوچ نیشنل ازم کی تاریخ اس امر کے حوالے سے گواہ ہے کہ پانچ مراحل میں بلوچ قوم پہاڑوں میں مورچہ زن اپنی قومی مزاحمتی روایات کے بدولت ہوئے ہیں ، جسے آج کچھ نادان صحافی و نادان لکھاری قبائلیت کا رنگ دیتے ہیں اور انہیں قبائلی راہنماء گردانتے ہیں انکی یہ جنگ بیشک کمزرو تھی لیکن انکی سوچ قومی تھی ، بلوچستان یونیورسٹی کے اک پروفیسر ُکنڈی کے مطابق جب وہ ریسرچ کے حوالے سے قلات تشریف لےگئے تو وہاں شاہی محل میں انکی ملاقات ایک بوڑھے شخص سے ہوئ جو نواب نوروز خان کا اک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ کیسے نواب نوروز خان خان آف قلات کو قومی جنگ کے لیے اور ہتھیار دینے کے لیے راضی کررہے تھے جب خان آف قلات راضی نہ ہوا تو نواب نوروز خان غصے میں خان آف قلات اور کالوناہزرز کے لیے بہت سخت و ہتک آمیز الفاظ کہے جو یہاں ناقابل بیان ہے ، آغا کریم سے پہلے اور آج تک کی مزاحمتی جنگ ریاست کے خلاف جو لڑی گئ وہ اسی سپر اسٹرکچر (قومیت) کی بنیاد پہ لڑی گئ ، جو تاریخی و فطری طور پہ جاری و ساری ہے اور اس کے مدمقابل ریاستی اجارہ داری بھی پولیٹکل و سول سوسائٹی کی بدولت زور آزمائی کررہی ہے اور بلوچ کی پناہ گاہ انکی قومی تہذیب بنی ہوئی ہے جس نے ہر شہر و دیہات میں کالوناہزر کو اجنبی بننے پہ مجبور کردیا ہے ، کالوناہزر ہاتھ میں بندوق لیے ،طاقت کے خمار میں بلوچستان کے بلوچ علاقوں میں جہاں کہیں بھی جاتا ہے وہ اپنے آپ کو وہاں اجنبی پاتا ہے یہاں تک کہ بیوروکریٹ بھی یہ اجنبی پن محسوس کرتے ہیں اس اجنبی پن کو سہنا انکی ایک مجبوری بن چکی ہے کیونکہ بلوچ سرزمین کے بغیر ان کا اپنا وجود خطرے سے دو چار ہے ، اپنے اوپر جبر اور کاناہزڈ پہ مسخ شدہ لاشوں کی صورت میں ظلم نہ صرف انکی لاشعور میں بلکہ انکی آنے والی نسلوں کے لاشعور میں بنپ رہا ہے اسی جبر کی وجہ سے وہ آخرکار بیگانگی کا شکار ہوتے ہیں جس کی طرف ھیگل نے غلام و آقا کی جدلیات میں اشارہ کیا تھا ، دوسری طرف غلامی کا احساس محکومی (بیگانگی) انہیں کرب سے نکال کر اسے مزاحمت کی راہ میں ڈال کر اپنی وجود تراش رہا ہے اور وہ جو اس قومی تہذیب و قومی شعور کو پروان چڑھا رہے ہوتے ہیں ان کے لیے یہ تہذیب چٹان جیسی اہمیت اختیار کرکے پناہ گاھیں بن جاتی ہیں جہاں وہ بغیر بندوق کے بھی اک مزاحمتکار کا روپ دھار لیتے ہیں ، غسان کفانی جنہیں اپنے الفاظ پہ اتنا قابو تھا کہ مجال ہے کوئ انٹرویو کرنے والا اپنے مقصد کی بات ان کی مُنہ سے اگلواۓ، ان کے بارے میں مشہور ہے “ایک ایسا سپاہی جنہوں نے اک گولی نہیں چلائی” بلوچ تاریخ میں بابا مری ایسی شخصیت تھے جو لفظوں کی حرمت سے واقف تھے جو اک اک لفظ پہ سوچتے تھے کہ جو وہ کہہ رہا ہیں مخاطب ان کے الفاظ سے کیا مطلب لے رہا ہے گویا وہ اپنے مخاطب کو جانتے تھے۔

بابا مری کے سامنے نہ صرف بلوچ نیشنل ازم کی تاریخ پڑی تھی بلکہ گرامشی کی طرح زار روس کی شکست و ریخت پہ بھی اُن کی نظر تھی ، زار روس کی شکست و ریخت کے تجربہ کی روشنی میں گرامشی جیسے مارکسسٹ جنہوں نے اپنی زندگی کے بیس سال جیل میں گذارے ، فقط اقتصادیات کی جدلیات یا بیس اسٹرکچر کو بنیاد بنانے کا یکسر مخالف رہے اور سپر اسٹرکچر ، کلچرل اجارہ داری یا پاپولر نیشنل کو اقتصادیات کی جنگ سے پہلے کی لازمی جنگ قرار دی ، آج جب بابا مری مستقبل میں سوشلزم کی بات کرتے ہیں وہ ھیگل کی طرح اس تاریخی و فطری عمل کو جانتے ہیں کہ اس اسٹیج کا ہونا تاریخی و فطری عمل میں کس قدر لازمی ہے وہ اس امر سے بخوبی واقف ہیں کہ کسی قوم کی آذادی کے لیے قومی شعور کو سماجی شعور میں بدلنا بعد کاعمل ہے اب ضرورت سماجی شعور کو قومی شعور میں بدلنے کی ہے ، وہ اسی لیے کالوناہزر کی دی ہوئ سماجی ترقی کو بجاۓ ترقی کے استصالی حربہ سمجھتے ہیں جو قومی شعور کے سامنے بل باندھا ہوتا ہے جبکہ قومی شعور ،جو کہ مزاحمت کے بدولت طفلانہ اسٹیج سے ہوکر بنپ رہا ہے جس کی طرف فینن نے واضح طور پہ لکھا ہے کہ “تاریخ ہمیں یہ واضح طور پہ یہ بتاتی ہے کہ استعمار کی خلاف جنگ براہ راست قومیت کے خطوط پہ لڑی نہیں جاتی ۔ مقامی باشندہ اک عرصہ دراز تک چند خاص بدعنوانیوں مثلاً جبری محنت ، جسمانی سزا ، تنخواہوں میں عدم مساوات ، محدود سیاسی حقوق وغیرہ کو دور کرنے میں اپنی توانائ صرف کرتا رہتا ہے ۔ انسانیت پر ظلم کے خلاف جمہوریت کی یہ جنگ آہستہ آہستہ اور بعض اوقات وقت طلب مراحل سے گذر کر ، خیالی بین الاقوامیت کے جھمیلوں سے نکلتے ہوۓ قومیت کی صورت رونما ہوتی ہے “
نوٹ : یہاں تہذیب وسیع تر معنوں میں نہیں لیا گیا ہے


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں