لاہور سے بلوچ طلباء کو گرفتار کرکے لاپتہ کرنا تشویشناک عمل ہے -بلوچ اسٹوڈنٹس

202

بلوچ اسٹوڈنٹس وفاق و پنجاب کے ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ بلوچستان میں تعلیمی اداروں کی قلت اور غیر معیاری تعلیم کو مدِنظر رکھتے ہوئے ہزاروں طالبعلم پنجاب اور دوسرے صوبوں کے تعلیمی اداروں کا رُخ کرتے ہیں۔ لیکن افسوس کی بات ہے کہ بلوچستان کے طالبعلم اب پنجاب کے تعلیمی اداروں میں بھی محفوظ نہیں ہیں۔ جو طالبعلم ایک روشن مستقبل کا خواب لئے بلوچستان سے پنجاب آئے وہ اب یہاں سے گرفتاری کے بعد لاپتہ ہو رہے ہیں۔

ترجمان نے مزید بتایا کہ گذشتہ دِنوں پنجاب یونیورسٹی لاہور کے ہاسٹلز میں پنجاب پولیس کی جانب سے رات گئے بلوچ اور پشتون طلبہ کے کمروں میں چھاپے مارے گئے اور اُنہیں ہراساں کیا گیا۔ اِسکے علاوہ لاہور کے دیگر علاقوں میں رہائش پذیر چار بلوچ طالبعلموں کو ہاسٹلز سے گرفتاری کے بعد لاپتہ کردیا گیا، بعدازاں ان میں سے دو کو رہا کیا گیا تھا۔ البتہ دو طالب علم ابھی تک غیر قانونی طور پر لاپتہ ہیں جن میں ھوشاپ، کیچ کے رہائشی اور پنجاب کالج کے طالب علم آدم اور عمران شامل ہیں۔

یاد رہے اِن اغواء نما گرفتاریوں کا سلسلہ تاحال جاری ہے جس کی وجہ سے طلبہ ذہنی کوفت کا شکار ہو رہے ہیں۔ ایک طرف بلوچستان کے تعلیمی اداروں کے احاتوں سے طالبعلموں کی جبری گمشدگی میں تسلسل کے ساتھ اضافہ ہوتا جا رہا ہے تو دوسری جانب ملک کے دوسرے صوبوں میں بھی بلوچ طلبہ اِس غیر آئینی عمل کا شکار بنتے جا رہے ہیں، جو کہ اِنتہائی تشویشناک ہے۔

بیان کے آخر میں بلوچ سٹوڈنٹس وفاق و پنجاب کے ترجمان نے کہا کہ ہم اس تعلیم دشمن پالیسی کو مُسترد کرتے ہیں۔ اُنہوں نے حکومتِ پنجاب اور وفاقی حکومت سمیت دیگر ملکی اداروں سے اپیل کی کہ لاہور سے لاپتہ ہونے والے بلوچ طلبہ کی بازیابی کو یقینی بنائیں اور اغواء نما گرفتاریوں کے سلسلے کو روکیں۔