بلوچ یکجہتی کمیٹی نے صوبائی وزیر داخلہ کے پریس کانفرنس اور پہلے سے لاپتہ افراد کو ہوشاپ واقعہ کا زمہ دار ٹھہرانے پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہےکہ جب ریاست سے انصاف کی بات کی جاتی ہے تو ریاست انصاف کا جواب مزید ناانصافیوں کے ساتھ دیتی ہے۔ بلوچوں کیلئے ریاست نے قانون اور انصاف کو مذاق بنایا ہوا ہے جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بلوچستان میں لوگوں کی زندگیوں کی قیمت کیا ہے۔ جب ہوشاپ میں سیکورٹی فورسز نے گولے مار کر بچوں کو شہید کر دیا تو خاندان نے انصاف کیلئے ہوشاپ سے تربت اور پھر تربت سے انتہائی تکلیف دہ سفر کرکے لاشوں کے ہمراہ کوئٹہ میں دھرنا دیا تاکہ اصل ملزمان ایف سی کے زمہ داران کو انصاف کے کہٹرے میں لایا جائے لیکن بدقسمتی سے انصاف فراہم کرنے کے بدلے شہداء کے خون پر مزید چار بیگناہوں کو پابند سلاسل کرکے انہیں نقصان پہنچانے کا فیصلہ کر دیا گیا جبکہ بچوں کے اصل قاتل ایف سی اہلکاروں کو اس سارے جرم میں چھوٹ دی گئی۔ اس طرز کا ریاستی انصاف بلوچوں کیلئے لمحہ فکریہ ہے، کیا حکومت اور حکمران یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ انصاف کیلئے احتجاج کرنے کے پاداش میں مزید ناانصافیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
ترجمان نے کہا کہ ہوشاپ سے گزشتہ مہینے 16 دسمبر کو سیکورٹی فورسز کے آپریشن میں پانچ افراد کو لاپتہ کیا گیا تھا جس میں ایاز ولد نیک سال، اویس ولد حسین بلوچ، نبیل ولد ہاشم سفر بلوچ ولد جمعہ خان اور لطیف ولد صالح بلوچ شامل ہیں بعدازاں چار افراد کو زیر حراست رکھا گیا تھا لیکن انہیں بازیاب کرنے بجائے ان پر بلاوجہ ہوشاپ کے بچوں کو قتل کرنے اور دیگر افراد کو نشانہ بنانے کا زمہ دار ٹھہرایا گیا جو سراسر ناانصافی پر مبنی عمل ہے، جبکہ لواحقین نے بھی پریس کانفرنس میں ان نوجوانوں کی ہوشاپ واقعہ میں ملوث ہونے کی تردید کر دی ہے۔ لیکن اصل ملزمان کو گرفتار کرنے انہیں سزا دینے کے بجائے معصوم لوگوں کو لاپتہ کرکے انہیں قاتل ظاہر کرنا صوبائی حکومت اور سیکورٹی اداروں کی ناکامی اور ان کی غیر سنجیدگی کا واضح ثبوت ہے، اگر حکمرانوں کا رویہ بلوچ قوم کے ساتھ یہی رہا تو اس ملک میں انصاف مانگنا لوگ چھوڑ دینگے۔ عدالت عالیہ کو اس معاملے پر خاموشی توڑ کر حکومت سے جواب طلبی کرنی چاہیے کہ کس قانون کے تحت اصل مجرموں کو چھوڑ کر معصوم لوگوں کو لاپتہ کرکے پھر انہیں ہوشاپ واقعہ میں ملوث قرار دیا گیا۔ اس طرح کے واقعات سے پاکستان کے اندر انصاف کی جگ ہنسائی ہو رہی ہے۔ ہوشاپ واقعہ پر عوامی تحریک چلی جو لواحقین کی طرف سے عدالت عالیہ کی جانب سے اصل مجرموں کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کی ہدایت پر ختم کیا گیا مگر اب قاتلوں کی گرفتاری کے بجائے مزید چار معصوم لوگوں کو زندانوں میں بند کرنا سراسر ظلم و جبر کی انتہا ہے۔
ترجمان نے آخر میں چاروں نوجوانوں کی فوری طور پر بازیابی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر حکومت اور حکمرانوں میں یہ جرات نہیں کہ وہ اصل قاتلوں کو گرفتار کریں تو اس واقعے کے آڑ میں بلوچوں کے ساتھ مزید ناانصافیاں عمل میں نہ لائی جائیں۔