عبدالحمید زہری کے عدم بازیابی کیخلاف کراچی میں احتجاجی مظاہرہ

356

گذشتہ سال دس اپریل کو کراچی سے جبری گمشدگی کے شکار ہونے والے عبدالحمید زہری کے لواحقین نے ہفتے کے روز کراچی پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا۔

سال نو کے پہلے دن لاپتہ عبدالحمید زہری کے بچوں، خواتین اور دیگر لاپتہ افراد کے لواحقین نے اپنے پیاروں کی تصویریں اٹھا کر پریس کلب کراچی کے سامنے اپنے پیاروں کی بازیابی کا مطالبہ کیا –

بلوچستان میں لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے سرگرم تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ اور دیگر سیاسی و سماجی رہنماء مظاہرے میں شریک رہے –

اس موقع پر کراچی سے جبری گمشدگی کے شکار ضلع خضدار کے تحصیل زہری کے رہائشی عبدالحمید زہری کی بیٹی نے کہا کہ گذشتہ سال 10 اپریل کو مقامی پولیس و سادہ کپٹروں میں ملبوس اہلکاروں نے کراچی میں انکے گھر پر دیر رات چھاپہ مار کر گھر میں موجود عبدالحمید زہری ولد شکر خان کو اپنے ہمراہ لے گئے۔

انہوں نے کہا کہ واقعہ کے بعد ہم نے مقامی پولیس و دیگر اداروں سے گھر پر بغیر کسی وارنٹ کے چھاپہ مارنے اور عبدالحمید زہری کے گرفتاری بابت رجوع کی تو مقامی پولیس نے ایسے کسی واقعے کی تردید کی۔

انہوں نے کہا کہ ہم آج سراپا احتجاج بن گئے ہیں تاکہ ہم اپنی آواز متعلقہ اداروں تک پہنچائے کہ لاپتہ عبدالحمید زہری کو منظر عام پر لاکر انصاف فراہم کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ ہم ایسے بدقسمت لوگ ہیں کہ نیا سال کی خوشیاں منانے کے بجائے یہاں سراپا احتجاج ہیں اور انصاف مانگ رہے ہیں –

انکا کہنا تھا کہ میرے والد شوگر کا مریض ہے اور دوائیں لے رہا تھا۔ انکے صحت یابی سے متعلق ہمیں خدشات لاحق ہیں –

اس موقع پر انہوں نے کہا کہ میرے والد کو بازیاب کیا جائے اور اگر وہ ریاستی اداروں کے نظر میں کسی جرم میں ملوث ہیں تو انہیں عدالتوں میں پیش کیا جائے –

اس موقع پر ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ ختم نہ ہونے والا یہ سال بلوچستان کے لیے جبری گمشدگیوں، لاشیں اور ماتم کنان سال رہا اور نئی سال کی ابتدا بھی ریاست نے یہی عمل سے شروع کی ہے –

انہوں نے کہا کہ عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں کو بلوچستان میں انسانی بحران کی روک تھام کے لئے آواز اٹھانے کی اپیل کرتے ہیں کہ وہ اپنے ذمہ داریاں پوری طرح ادا کریں –