سوالات تو جنم لیتے ہیں
تحریر: شےحق صالح بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
سردی اور برفباری نے تو انسانیت کا جنازہ پڑھ لیا لیکن سیاسی ماحول ابھی تک گرماگرم ہے۔ کوئی وطن واپس ہونے کی تیاری میں ہے اور کہیں حکومت گرانے والی گروہ سرگرم۔ باقی صوبوں کی طرح بلوچستان میں بھی سیاسی میدان میں جنگ جارہی ہے اور ماحول کافی حد تک گرماگرم ہے۔ ڈر ہے کہ یہ ماحول سونامی کی صورت اختیار نہ کرے۔ پہلے ہی سے مکران کے ساحل پر سونامی (قدرتی سونامی کا ذکر نہیں ہورہا ہے )کا خطرہ ہے۔آئین کو تلاش کرتے کرتے ہم خود لاپتہ ہوگئے۔
ایسی صورتحال میں تو کچھ سوالات تو جنم لیتے ہیں جن میں کچھ تو روایتی سوالات ہیں۔ کیا پارلیمانی سیاست میں حصہ لینے والا لیڈر بلوچوں کا مقدمہ لڑ سکے گا؟ بنیادی حقوق حاصل کرنے والے تحریک میں کون سے نظریہ سے اختلافات ہیں؟
بلوچستان کا مقدمہ روز اوّل سے پارلیمانی سیاستداں لڑ رہے ہیں جیسا اُن کا ماننا ہے لیکن کیا مسنگ پرسنز سے لیکر وسائل کی لوٹ مار تک آج کے مسائل ہیں کہ کل پارلیمانی پارٹییاں اور سیاستداں اس کوحل کریں گے۔لگتا ہے ہم ہی غلط رخ سے دیکھ رہے ہیں۔
بلوچستان کا مقدمہ محض وہ اپنے تقریروں سے لڑ رہے ہیں۔ پارلیمانی لیڈروں نے تو سنڈک سے لیکر CPEC جیسے معاہدوں پر دستخط کرکے اپنی کرسیاں گرانے سے بچا لئے اور کچھ قوم دوست اسمبلی کی سیٹ حاصل کرنے کے لئے مزاحمت کرنے لگے۔جس کی حقیقت دنیا کے سامنے ہے اس پر کیا بحث کرنا۔
پتہ نہیں پارلیمانی سیاستدان بلوچوں کا مقدمہ لڑ سکیں گے یا کہ نہیں لیکن بلوچ تو آپس میں ضرور ہاتھاپائی کریں گے الیکشن کے دن محض کچھ ووٹوں کے لئے۔ مختلف سیاسی جماعتیں بلوچوں کو مختلف نظریوں سے رہنمائی کرتے ہوئے ایک نیا کھیل کھیلنا چاہتے ہیں۔
گزشتہ دن حق دو تحریک کے احتجاج میں حمایت نہ کرنے والوں کی نظر یہ کیا ہو سکتی ہے؟ آل پارٹیز کیچ یعنی تمام سیاسی جماعتیں اور حق تحریک کیا بلوچوں میں ایک نیا دراڑ پیدا کرے گی؟
قبائلی سیاست کو برا بھلا کہنے والے اور عوامی تحریکوں کی حمایت نہ کرنے والے کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں؟ وہ کونسی سوچ اور نظریے کے مالک ہیں۔ بلوچوں میں مختلف سوچ اور نظریے جنم دیئے جارہے ہیں محض اپنے مفاد کے لیے۔
کرکٹر والوں سے لیکر بلوچی کپڑے کی نمائش کرنے والے لیڈروں تک سب ڈرامے رہ گئے۔ کسی نے تو طلبہ سیاسی جماعتوں کو اپنے سیاست کا حصہ بنایا اور کسی نے جذباتی تقریر کرتے ہوئے نام کمایا۔
بند کمروں میں سیاست کرنے والوں پر بہت سے سوالات اٹھتی ہیں لیکن ان کو پوچھنے والا کوئی نہیں ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں