سندھ کی بس اتنی سی کہانی ہے!
تحریر: محمد خان داؤد
دی بلوچستان پوسٹ
کمیونسٹ مینو فیسٹو ان الفاظ سے شروع ہوتا ہے ”مزدور کا ماضی شاندار اورحال داغدار ہے پر ہم مزدور کا حال بھی شاندار بنائیں گے اور مستقبل بھی!“
یہ الفاظ کمیونسٹ مینو فیسٹو میں کئی بار آئے ہیں بلکل یوں سمجھیں کہ یہ الفاظ مینو فیسٹو کے دل میں یعنی عین بیچ میں بھی درج ہیں!پر سندھ کا ماضی کیا تھا؟حال کیا ہے؟اورمستقبل کیا ہوگا؟اس کے لیے بھی دانشور کوئی مینو فیسٹو لکھتے اور سندھ کو آگاہ کرتے پر ایسا کچھ نہیں ہے سندھ میں تین قسم کے دانشور رہتے ہیں ایک وہ جو سب کچھ جانتے ہیں پر سندھ کی ابتر حالت دیکھ کر کہاں غائب ہو گئے ہیں کچھ نہیں معلوم ایک وہ جو تھوڑا بہت جانتے ہیں اور سرکار کا دامن تھامے ہوئے ہیں اور تیسرے وہ جو کچھ نہیں جانتے انہیں کچھ خبر نہیں وہ بے عمل اور بے علم ہیں کورے ہیں جاہل ہیں جٹ ہیں زہر ہیں تریاقی ہیں جھوٹ ہیں فساد ہیں ایک گند ہیں پھر بھی سرکار کا در پیٹ رہے ہیں کہ کسی بھی طرح سر کا در کھلے اور وہ سرکار کا دامن تھام کر سرکار کے دامن میں جاکر بیٹھ جائیں۔
وہ سرکار کا در پیٹ پیٹ کر اپنے ہاتھ لہو لہان کر بیٹھے ہیں پر ان پر سرکار کا در نہیں کھلتا پہلی قسم کے دانشوروں پر سرکار کا در ضرور واہ ہوتا اور سرکار انہیں اپنی آنکھوں میں جگہ دیتی پر وہ کہاں گم ہو گئے کچھ نہیں معلوم پھر دو نمبر دانشوروں نے ان پہلے نمبر والوں کی جگہ لے لی جس کو سرکار نے قبول کر لیا رہے تیسرے قسم کے دانشور وہ تو ابھی تک در ہی پیٹ رہے ہیں۔
اس لیے کوئی نہیں جانتا کہ سندھ کا مستقبل کیسا ہوگا؟اور دانشور ایسا مینو فیسٹو لکھنے سے بھی رہے جس مینو فیسٹو میں ایسا ذکر ہوتا کہ سندھ کا مستقبل کیسا ہوگا؟دو نمبر دانشور سندھ کا مینو فیسٹو کیو ں تحریر کریں؟انہیں کیا غرض ہے وہ تو بس سرکار کے دامن میں بیٹھ کرمراعات حاصل کر رہے ہیں میلوں ٹھیلوں کے نام پر عیاشی کر رہے ہیں،سچل،قلندر،سے لیکر لطیف کے نام پر ہونے والے عرسوں میں صدارت کر رہے ہیں وہ کیوں جانیں گے کہ سندھ کا ماضی کیسا تھاَحال کیسا ہے؟اور مستقبل کیسا ہوگا؟
وہ کمیونسٹوں جیسے دل دادہ نہیں وہ قلندر نہیں وہ تو مفاد پرست کتے ہیں جو عالموں پر بھونکتے ہیں ان کے لمبے صوفی لبادوں سے اُلجھ کر رہ جا تے ہیں وہ کیوں سندھ کی خلق ہو بتائیں گے کہ سندھ میں موجودہ زرداری سرکار نے سندھ کا کیا حشر کیا ہے؟
سندھ میں کشمور سے لیکر کیٹی بندر تک ایک ایسی سندھ ہے جس کا یہاں نقشہ ہیں کھینچا جا سکتا پر اس سندھ کو آنکھوں سے دیکھا جا سکتا ہے جہاں ماؤں کے پیر ننگے اور بالوں کی مانگ دھول آلود ہے۔
جہاں ماؤں کے بچے بس اس لیے مر جا تے ہوں کہ سرکار میں بیٹھے راشی افسر مسکین ماؤں کے معسوم بچوں کے دودھ کے پیسے بھی کھا جاتے ہوں۔
جہاں ایک دن ماں بچے جن کر خوش ہو تی ہوں اور دسرے دن ان بچوں کی چھوٹی چھوٹی قبریں بن جا تی ہوں
جہاں پورا دیس پاگل اور آوارہ کتوں سے بھرا ہوا ہو
اور مائیں سگ زدہ بچوں کو اپنی جھولی میں لیے مرتا دیکھ رہی ہوں اور ان ماؤں کے بچے اس لیے مرتے ہوں کہ سرکاری راشی افسر کتے کے کاٹے کی ویکسین کے پیسے بھی کھا گئے ہوں
جہاں بوڑھے کے شکموں پر پتھر بھندے ہوئے ہوں
جہاں جوان ماؤں کی جوان بیٹیاں کاری کر کے مار دی گئی ہوں
اور ان جوان بیٹوں کی لاشیں کئی کئی گھنٹے سرکاری اسپتال میں بس اس لیے پڑی ہو ئی ہوں کہ وہاں کوئی ایم ایل او نہیں!
جہاں نہ بیمار کے لیے ایمبولینس میسر ہو اور نہ زخمی کے لیے
جہاں مر جانے والی لاش مالکوں کے ذمے ہو کہ وہ کسی وزن،سامان یا شی کی ماند اسے گھر کیسے پہنچاتے ہیں؟
جہاں اداس لاشے بیل گاڑی یا چنگ چی پر پڑی ہو اور سرکاری اسپتال سے گھر کے صحن تک اسے لاتے لاتے شام سے رات ہو جائے اور رات سے صبح!
جہاں مائیں بچے جنتی ہوں اور پولیس انہیں ہاف فرائی اور فل فرائی کر دیتی ہو
جہاں مائیں بچے جنتی ہوں اور انہیں سندھ کی خونی سڑکیں کھا جا تی ہوں
جہاں سرکار کے کرتا دھرتا کے لیے پورا سندھ بس کراچی ہو
جہاں سندھ سکڑ کر بس کراچی میں ٹھہر گیا ہو
تو پھر اس وقت سندھ کے دانشور کا کیا کام بنتا ہے؟
کمیونسٹ مینو فیسٹو میں یہ بھی درج ہے کہ
”جب سرمایا دارانہ دور میں ہر طرف بندوق کا راج ہو تو ایک دانشور کا ہتھیار اس کا قلم ہے اسے چاہیے کہ وہ قلم سے بندوق کا کام لے!“
پر سندھ کا دانشور قلم سے بندوق کا کیا پر جھاڑوں کا کام بھی نہیں لے رہا
وہ قلم سے کشکول کا کام لے رہا ہے
اور بھیک مانگ رہا ہے
اور امیروں کا در پیٹھ رہا ہے
سندھ کے دانشوروں کے ہاتھ لہو لہان ہیں
نہیں معلوم ان پر سرکار کا در کب کھلے گا
بس سندھ کی اتنی سی کہانی ہے!
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں