سبی میں بلوچ خاتون کا قتل پاکستان کی وحشیانہ کارروائیوں کا تسلسل ہے۔ بی این ایم

290

بلوچ نیشنل موؤمنٹ کے مرکزی ترجمان نے سبی میں پاکستانی بربریت کو وحشیانہ کاروائی اور اجتماعی سزا کا تسلسل قرار دیتے ہوئے کہا کہ لونی سبی میں فوجی آپریشن کے دوران بلوچ جہد کار کی ماں کو حراست میں لے کر شہید کردیا گیا۔ شہید پرویز ڈومکی نے ریاست اور اسکے اداروں کے سامنے ہتھیار پھینکنے کے بجائے مزاحمت اور شہادت کو ترجیح دی اور وطن پر قربان ہوگئے۔

پاکستان کے عسکری ادارے نے شہید جہد کار کے اس عمل کی سزا اسکی ماں کو شہید کرکے دیا جو پاکستانی درندگی اور جنگی جرائم میں نیا اضافہ ہے۔ بلوچستان میں گھس کر پاکستانی فوجی بلوچ اقدار کو پامال کر رہے ہیں۔ جس سماج میں خاتون کو نہایت قدر و منزلت حاصل ہے وہاں اس طرح کی درندگی بلوچ روایات کو للکارنے کے مترادف ہے۔ اس جرم کی سزا پاکستان اور اس کی فوج کو ہر صورت میں دینا پڑے گا۔

عالمی قوانین کسی بھی ریاست کو یہ اجازت نہیں دیتے کہ وہ دوران جنگ خواتین اور بچوں پر ظلم و بربریت کرکے انہیں اجتماعی سزا کا نشانہ بنائے۔ پاکستان اور اسکے ریاستی ادارے عالمی قوانین کو روندتے ہوئے بلوچستان میں خواتین اور بچوں کی جبری گمشدگی اور ماورائے عدالت قتل میں ملوث ہیں۔

ترجمان نے مزید کہا کہ سبی واقعہ بلوچستان کی تاریخ میں پہلا واقعہ نہیں بلکہ اس سے قبل بھی بلوچ جہد کاروں کو ہتھیار پھینکنے اور ریاست کے سامنے سرنڈر کرنے کی کوشش کروائی گئی اور انکار کی صورت میں خاندان کے افراد کو اجتماعی سزا کے عمل سے گزارا گیا۔ ریاست کا یہ عمل ظاہر کرتا ہے کہ وہ بلوچ جنگ آزادی کو روکنے اور بلوچوں کے دلوں سے وطن کی محبت ختم کرنے میں ناکامی کے بعد اجتماعی سزا کے غیر انسانی اور عالمی قوانین کے منافی عمل کے ذریعے خواتین اور بچوں کو سزا دے رہی ہے۔ یہ اسکے خائف ہونے کی مثال اور دلیل ہے۔

مرکزی ترجمان نے اپنے بیان کے آخر میں کہا کہ بلوچستان میں ظلم و ستم نے ہر طبقہ فکر کو شدید متاثر کیا ہے۔ عالمی اداروں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ بلوچستان میں اجتماعی سزا کی روک تھام کے لئے اپنا کردار ادا کریں اور پاکستان کو عالمی قوانین کی پاسداری پر مجبور کراکے بلوچ قوم کو ریاستی ظلم و ستم سے نجات دلوائے۔