بی این پی کے مرکزی رہنماء اور رکن بلوچستان اسمبلی ثناء بلوچ نے کہا ہے کہ بلوچستان میں فرینڈلی اپوزیشن کا تاثر غلط ہے ،قدوس بزنجو حکومت سے اس بنیاد پر تعاون کررہے ہیں کہ وہ بلوچستان کے ساحل وسائل ،تعلیم ،صحت اور بے روزگاری کو ختم کرانے میں کام کررہا ہے ۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں جام کمال سے کوئی دشمنی نہیں تھی لیکن اُس کے غلط پالیسیاں بلوچستان کے لیے اچھے نہیں تھے ۔
اِن خیالات کا اظہار انہوں نے جمعہ کے روز بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر کے تحصیل پسنی میں پریس کلب میں مقامی صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کیا-
اس موقع پر رکن صوبائی اسمبلی حمل کلمتی ،بی این پی کے مرکزی رہنماء قاسم دشتی اور سید معیار جان نوری بھی اُن کے ہمراہ تھے ،
ثناء بلوچ نے کہا کہ بلوچستان کے عوام بی این پی کو اپنا آواز سمجھتی ہے کیونکہ ہماری پارٹی نے اسمبلیوں میں آج تک اپنے ذاتی مفادات کی بات نہیں کی ہے اور نہ ہی خود کو ایک مخصوص حلقے تک محدود رکھا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ریکوڈک کا معاملہ 2011 سے چل رہا ہے 2011 سے لیکر آج تک جتنی حکومتیں آئی ہیں اُنکی کوتائیوں کی وجہ سے ریکوڈک آج اس نہج پر پہنچا ہے جو لوگ آج یہ کہہ رہے ہیں کہ ریکوڈک پر فیصلہ نہ کرنے کی وجہ سے اُن کی حکومتیں چلی گئیں ہیں وہ غلط بیانی سے کام لے رہے ہیں اُنھوں نے ریکوڈک کے کیس کو اچھے طریقے سے پیش نہیں کیا ۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے 500 بلین ڈالر کے سونے کے زخائر بین الاقوامی سطع پر گروہی رکھ دیے گئے ہیں اور 6 ارب ڈالر اُن پر جرمانہ عائد کردیاگیا ہے وفاقی حکومت اور بلوچستان کے سابقہ حکومتوں کی خامی کی وجہ سے ریکوڈک آج اِس نہج پر پہنچا ہے ۔
انہوں نے کہا کہ 2019 میں جب ریکوڈک کا فیصلہ آیا تو میں نے اپنے ایک آرٹیکل میں اُن تمام خامیوں کی نشاندہی کی اور لکھا کہ بلوچ کس طرح سے اپنے اِس زخائر کا دفاع کرسکتے ہیں اور بی این پی ریکوڈک کے حوالے سے اسمبلی میں قرارداد لایا تھا اور ابھی ریکوڈک پر جو بریفنگ دی گئی اِس سے تو بہتر بریفنگ میں نے اسمبلی میں دیا تھا ۔
انہوں نے کہا کہ ریکوڈک کے حوالے سے حالیہ بریفنگ سے ہم لاعلم تھے ریکوڈک معاملہ اچانک سامنے لایا گیا انہوں نے کہا ریکوڈک کے حوالے سے بی این پی کا موقف سیدھا ہے بی این پی ساحل وسائل اور حق ملکیت پر سودا بازی نہیں کرسکتی بلوچستان کے مالک بلوچ عوام ہے ریکوڈک میں بلوچستان کا حصہ 50 فیصد نہیں بلکہ ساٹھ فیصد ہے کیونکہ یہ بات خود پاکستان کے آئین میں لکھا ہے کہ جس علاقے میں زخائر نکلتے ہیں اُس کے مالک وہاں کے لوگ ہیں کیونکہ حق ملکیت کا تصور پچاس فیصد سے اوپر شروع ہوتا ہے ۔
انہوں نے کہا کہ ریکوڈک کے معاملے پر سب سے مضبوط موقف بی این پی کی ہے کیونکہ بی این پی گزشتہ چھ سالوں سے ریکوڈک پر بات کررہی ہے اور ابھی 18 تاریخ کو اسمبلی اجلاس میں اس معاملے کو دوبارہ اُٹھائینگے۔
انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت کو زور زبردستی کرنے کی ہر گز اجازت نہیں دینگے وفاقی حکومت ٹیکنیکل بنیادوں پر بلوچستان کے حق حاکمیت کو تسلیم کرے ہم ریکوڈک کے حوالے سے قرار داد لائینگے اور اُس کے ٹیکنیکل پوائنٹس پر بات کرینگے اور صوبائی حکومت کو قانون سازی کے لیے قائل کرینگے کہ وہ وفاق میں بلوچستان کا مقدمہ پیش کرے ۔
ثناء بلوچ نے قدوس بزنجو حکومت کے ساتھ فرینڈلی اپوزیشن والی تاثر کو غلط قرار دیتے ہوئے کہا کہ جام کمال حکومت کی وجہ سے بلوچستان کے عوام آج مشکلات کا شکار ہوچکے ہیں زاتی عناد کی بنیاد پر ہمارے علاقوں کے بجلی کے ٹرانسفارمر بند کرادیے گئے پانی فراہمی کے فنڈز بند کردیے گئے جو کہ ایک ظلم تھا اور اس ظلم کے خلاف ہم نے جدوجہد کی اور ہم نے حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک شروع کردی جو کامیاب ہوگئی اور باپ کے ایم پی ایز نے بھی ہمارے مطالبات کو جائز قرار دیا لیکن کم تعداد کی وجہ سے ہم حکومت نہیں بناسکے۔
انہوں نے کہا یہ بات غلط ہے کہ ہم صوبائی حکومت کے ساتھ فرینڈ لی اپوزیشن کا کردار ادا کررہے ہیں نئی حکومت بننے کے بعد اسمبلی کا صرف ایک اجلاس ریکوڈک پر ہوا ہے موجودہ صوبائی حکومت اگر سابقہ حکومت کے نقش قدم پر چلے گی تو عوام دیکھے گی کہ ہم اسمبلی میں ویہی کرینگے جو ماضی میں کرتے آۓ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ قدوس بزنجو کے ساتھ تعاون اس بنیاد پر کر رہے ہیں کہ وہ بلوچستان میں تعلیم ،صحت،نوکریوں کی مستقلی اور بے روزگار نوجوانوں کو روزگار دینے کے لیے عملی طور پر کام کررہے ہیں جس دن قدوس بزنجو حکومت نے عوامی حقوق اور ساحل وسائل پر سمجھوتہ کرلیا ہم اُس کے ساتھ نہیں چلینگے ۔
انہوں نے کہا کہ ہم کو جام کمال سے کوئی دشمنی نہیں تھی لیکن اُس کی پالیسیاں بلوچستان کےلیے اچھے نہیں تھے ۔
انہوں نے کہا کہ میں نے اور ایم پی اے میر حمل کلمتی نے اسمبلی میں ایک قرارداد جمع کرادی ہے جس میں غیر قانونی ٹرالنگ پر قانون سازی کرانے کا مطالبہ شامل ہے۔
انہوں نے کہا ہم نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ گوادر بلوچستان کا دل ہے یہاں کے پانچ ہزار نوجوانوں کو روزگار دینے کے لیے کوسٹل فشریز فورس کا قیام عمل میں لایا جائے تاکہ یہاں کے نوجوان اپنے سمندر کا دفاع خود کرسکیں ۔
انہوں نے کہا کہ جام کمال حکومت کے پالیسیوں اور زاتی چفقلش کی وجہ سے بلدیہ کے ملازمین اپنی تنخواہوں سے محروم ہوئے ہیں اگر بلوچستان بھر کے ملازمین کی تنخواہیں ایک ہفتے کے اندر ادا نہیں کی گئی تو 18 تاریخ کو اسمبلی اجلاس میں متعلقہ محکمہ کا جینا حرام کردینگے ۔