ہفتے کے روز کراچی میں پریس کلب کے سامنے بلوچستان کے ضلع خضدار کے رہائشی آصف اور رشید بلوچ کی جبری گمشدگی اور عدم بازیابی کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا گیا –
ہاتھوں میں جبری گمشدگیوں کے شکار افراد کی تصویریں، بینرز اور پلے کارڈز اٹھے مظاہرین نے بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے خلاف نعرہ بازی کرتے ہوئے لاپتہ افراد کی بازیابی کا مطالبہ کیا –
مظاہرے میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ، سمی دین بلوچ، بلوچ یکجہتی کمیٹی کراچی کے قائدین سمیت لاپتہ راشد حسین کی والدہ اور بھتیجی ماہ زیب سمیت دیگر لاپتہ افراد کی لواحقین نے شرکت کی –
اس موقع پر لاپتہ رشید اور آصف بلوچ کی ہمیشرہ سائرہ بلوچ نے کہا کہ میرے بھائی اور کزن کو 31 اگست 2018 کو پاکستانی سکیورٹی فورسز اور انٹیلیجنس ایجنسیز نے نوشکی کے تفریحی مقام زنگی ناوڑ سے آئے دیگر نو دوستوں سمیت گرفتار کیا۔
انہوں نے کہا کہ گرفتاری کے بعد پاکستان ایف سی نے ان کی تشدد زدہ تصاویر سوشل میڈیا اور اخبار میں چھپواتے ہوئے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ میرا بھائی، کزن اور انکے دیگر دوست سکیورٹی فورسز کی حراست میں ہیں لیکن گرفتاری کے بعد ان کے خلاف نہ کوئی مقدمہ درج کیا گیا ، نہ ان کو رہا کیا گیا ، یہ ہمارے خاندان کی ان سے ملاقات کرائی گئی اور نہ انہیں کسی عدالت میں آج تک پیش کیا گیا ۔
انہوں نے کہا کہ آج تین سال سے زائد ہو چکے ہیں کہ میرے بھائی اور کزن کے حوالے سے کسی بھی طرح کی معلومات میں نہیں دی جارہی ہیں گزشتہ سال ان کے تین دوست رہا کئے گئے مگر میرے بھائی اور کزن کو بازیاب کر کے رہا کرنے یا ان کے بارے میں ہمیں معلومات فراہم کرنے کی بجائے متعلقہ حکام ہم سے پوچھتے ہیں کہ میرا بھائی اور کزن نوشکی کیوں گئے تھے اب میں کیسے بتا سکتی ہوں کہ وہ نوشکی کیوں گئے تھے ؟ البتہ میں اتنا بتا سکتی ہوں کہ انھیں اپنے گاؤں اور شہر سے باہر بلوچستان کے کسی بھی علاقہ جانے کے لیے پاسپورٹ ، ویزہ یا کسی اور قسم کے سفری دستاویزات کی ضرورت نہیں تھی-
انہوں نے کہا کہ پنجاب ، کشمیر اور دوسرے علاقوں کے باشندے بلا روک ٹوک بلوچستان میں گھوم سکتے ہیں مگر ہم بلوچوں سے اپنے گاؤں اور شہر سے باہر جانے کی وجہ پوچھی جاتی ہے میرا بھائی اور کزن تین سال اور پانچ ماہ سے ایف سی اور خفیہ اداروں کی بے جا حراست میں ہیں اتنا تو ہم بھی جانتے ہیں کہ سکیورٹی اداروں نے ان کو دعوت کھلانے کے لئے خفیہ اذیت گاہوں میں نہیں رکھا ہے میں نہیں جانتی کہ میرے بھائی اور کزن کے ساتھ وہاں کیا سلوک کیا جارہا ہے مگر اتنا معلوم ہے کہ وہاں سے رہا ہونے والے ظلم کی جو داستان بیان کرتے ہیں ان کو سن کر نہ صرف رونگے کھڑے ہوتے ہیں بلکہ انسانیت کا سر بھی شرم سے جھک جاتا ہے ۔ تین سال سے زائد عرصہ تک حراست میں رکھنے کے بعد بھی جب میرے بھائی اور کزن کے خلاف کسی مجرمانہ سرگری میں ملوث ہونے کا کوئی ثبوت نہیں تو پھر انہیں بچا حراست سے آزاد کیوں نہیں کیا جاتا ؟
انہوں نے کہا کہ مہذب معاشروں میں محض شک کی بنیاد پر کسی انسان کو اتنا طویل عرصے تک حراست میں رکھنے کا تو تصور بھی نہیں کیا جاتا ۔ پولیس عموما جبری گمشدگی کا مقدمہ درج نہیں کرتا اور اگر کسی طرح مقدمہ درج کر بھی لیا جائے تو درست تفتیش نہیں کرتے ۔ لاپتہ افراد کی کمیشن میں ہم نے درخواست دائر کی ہے مگر وہاں بھی داد رسی کی رفتار بہت سست ہے پتہ نہیں ان کے پاس لاپتہ مظلوموں کو بازیاب کرانے کا اختیار نہیں ہے یا ارادہ نہیں ہے ؟ میں آپ کی توسط سے مطالبہ کرتی ہوں کہ میرے بھائی محمد آصف ولد محمد پناہ اور میرے کزن حافظ عبد الرشيد ولد عبد الرزاق سمیت تمام جبری لاپتہ افراد کو بازیاب کیا جائے –
دریں اثناء بلوچ سوشل میڈیا ایکٹیویسٹس کی جانب سے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر