کوئٹہ پریس کلب کے سامنے لاپتہ افراد کے لیے قائم بھوک ہڑتالی کیمپ کو آج 4513 دن مکمل ہوگئے۔ اظہار یکجہتی کرنے والوں میں خان گڑھ جیکب آباد سےجسقم کے ضلعی عہدیداروں علی حسن سومرو، نورمحمد ابڑو اور دیگر نے اظہار یکجہتی کی۔
وی بی ایم پی کے رہنما ماما قدیر بلوچ نے وفود سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بلوچ، پشتون ، سندھی کے تمام مکاتب فکر کے لوگوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ پرامن جدوجہد میں عملی کردار ادا کریں بلوچ جہدکاروں اور تمام قوتوں کی جہد اور شہدا کی لہو نے قابض ریاست کو آخری سانسیں لینے پر مجبور کردیا ہے اور یقینا پاکستانی ریاست اپنی قبضے کو جان بخشنے کے لئے بلوچ سلو جینوسائڈ میں مزید تیزی لاتے ہوئے سیاسی ورکروں سمیت تمام مکاتب فکر کے لوگوں کو نشانہ بنانے میں تیزی لائی چکی ہے اس لیئے آج وہ بلوچ فرزندوں کو چن چن کر مار رہا ہے پوری قوم اور دنیا کے سامنے ہے جہاں مچھ بولان مستونگ ڈیڑہ بگٹی میں لاپتہ بلوچ فرزندوں کو شہید کرکے سی ٹی ڈی کے مقابلے کے ڈرامہ رچایا جاتا ہے مکر ان مقبوضہ بلوچستان کے کئی علاقوں میں سول آبادیوں پر فوجی طاقت کا بے دریغ استعمال کرکے بلوچ کو اسکی زمین پر بے ننگ کیا جاتا ہے اور سیاسی ورکروں لیڈروں کو گھر میں گھس کر شہید کیا جاتا ہے ۔ پرامن مظاہروں ریلیوں پر لاٹھی چارج جنازوں میں شامل افراد کو غائب کیا جاتا ہے سرکاری گدھی پر بھیٹنے سے پہلے لاپتہ افراد کو ڈال بنایا جاتا ہے تاکہ دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکا جائے اور آج اسی لاپتہ اسیران کی کیمپ کو جلایا جاتا ہے۔ جہاں پر بلوچ شہیدوں و لاپتہ فرزندوں کے لواحقین آکے جمع ہوتے اور اپنے پیاروں کے بازیابی کیلیے دعا کرتے اور دنیا کے سامنے قابض ریاست کی بربریت آفشان کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ماماقدیر بلوچ نے مزید کہا کہ آج پاکستان کے لیے لفظ بلوچ ایک گناہ و جرم ہے اور وہ بلوچ کرکے ماررہا ہے چائے بلوچ اپنے گھر میں خاموش بیٹھا ہے یا جہد کا حصہ ہے یا کسی کا رشتہ دار پاکستان نے اسے مارنا ہے۔