وزیراعظم پاکستان کے مشیر قومی سلامتی کے لاپتہ افراد متعلق بیان، لواحقین و متاثرین کا ردعمل

598

پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کے مشیر قومی سلامتی ڈاکٹر معید یوسف نے کہا ہے کہ بلوچستان سے لاپتہ زیادہ تر افراد  میں وہ لوگ ہیں جو دہشتگرد تھے یا جرائم میں ملوث تھے وہ کہیں لڑائی لڑنے گئے اور بدقسمتی سے مارے گئے۔’

بی بی سی کے پروگرام “ہارڈ ٹاک” میں گفتگو کرتے ہوئے معید یوسف نے کہا کہ لاپتا افراد کے کسی کیس میں بھی خلاف ورزی کی صورت میں ذمہ دار ریاست کی طرح اقدامات کیے جائیں گے۔

ایک سوال کے جواب میں معید یوسف نے کہا کہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں نہیں ہورہیں۔  اگر ہمیں کوئی بھی ایسا کیس ملتا ہے جہاں ریاست نے کچھ کیا جو اسے نہیں کرنا چاہیے تھا تو متعلقہ شخص کے خلاف تحقیقات کی جاتی ہے اور سزا دی جاتی ہے جیسے کسی ذمہ دار ریاست میں ہوتا ہے۔ ریاستیں ایسے ہی چلتی ہیں مگر کوئی ریاست مثالی نہیں ہے۔ 

ڈاکٹر معید یوسف نے دعویٰ کیا کہ بلوچستان سے لاپتہ افراد کے اکثر کیسز میں ان لوگوں کا ذکر ہے جو ریاست سے لڑ رہے تھے یا کہیں اور یہ لوگ بدقسمتی سے بچ نہیں سکے۔ ہماری یہ تحقیق ہے۔ ہم کوشش کر رہے ہیں کہ سب سے کمزور پاکستانی بھی خود کو محفوظ سمجھے۔

خیال رہے کہ اس سے قبل بلوچستان کے وزیراعلیٰ قدوس بزنجو نے اسی طرح کا بیان دیا تھا جس پر دی بلوچستان پوسٹ نے بارہ سالوں تک لاپتہ ہونے والے نارویجن شہری احسان ارجمندی سے بات کی تھی۔ انہوں اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ وہ بارہ سالوں میں پاکستانی خفیہ ایجنسیوں کے ٹارچرسیلوں میں قید تھا۔

حامد میر نے معید یوسف کے اس بیان پہ سوال اٹھاتے ہوئے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پہ لکھا ہے کہ ‏جناب معید صاحب یہ بتائیے کہ ایک بلوچ خاتون استاد زرینہ مری کہاں لڑائی کرنے گئی تھی؟ اسکی گود میں تو شیر خوار بچہ تھا اسے بچے سمیت گرفتار کیا گیا اور خاندان کے مردوں کے متعلق کراچی میں تفتیش کی گئی تھی کئی سال گذر گئے تفتیش ہی مکمل نہیں ہوئی۔

لاپتہ ڈاکٹر دین محمد کی صاحبزادی اور وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی رہنماء سمی دین نے مذکورہ بیان پہ لکھا کہ وزیراعظم عمران خان دو دن پہلے ڈی چوک اسلام آباد میں اپنے گمشدہ پیاروں کی تصویریں لئے روتی ہوئی ماؤں اور بیٹیوں کو اپنے قومی مشیر کے ذریعے یہ پیغام دینے کا شکریہ۔

سمی بلوچ نے مزید لکھا کہ ‏میرے والد ڈاکٹر دین محمد بلوچ کو 12 سال پہلے چشم دید گواہوں کی موجودگی میں خضدار سے دوران ڈیوٹی سیکورٹی فورسز کے اہلکاروں نے اغواء کرکے لاپتہ کردیا تھا اپنی زندگی کے بیشتر ایام احتجاجوں پریس کلبز عدالتی میں پیشیوں میں گزارے اور ایسے بیانات خود کو گمراہ کرنے کے لیے ہوسکتے ہیں ہمیں نہیں۔

صحافی اسد طور نے اس بیان پہ لکھا ہے کہ ‏جھوٹے پر خُدا کی لعنت، اُس کے ماں باپ پر خُدا کی لعنت، اُس کی اولاد پر خُدا کی لعنت، اُس کے خاندان پر خُدا کی لعنت اور زمینی خُداوں کے غُلاموں پر خُدا کی لعنت۔۔ اللہ کرے بے بس اور بے کس ورثا کی بددعایں ایسی لگیں کہ جھوٹوں کی نسلیں اُنکی آنکھوں کے سامنے تباہ و برباد ہوں۔