میں نا اُمید نہیں ۔ فریدہ بلوچ

296

میں نا اُمید نہیں

تحریر: فریدہ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بھائی؛ اس لفظ کو ہم سب سنتے ہیں، میں بھی اس لفظ سے آشنا تھی اس کی اہمیت محبت اور شفقت سے آگاہ تھی مگر اس سے بچھڑ جانے اور تین سال کے طویل انتظار نے مجھے میرے بھائی کی اہمیت اور اسکی ضرورت سے مزید آگاہ کیا۔

کائنات کی ہر شے کی اپنی اہمیت ہوتی ہے مگر ہر اک کے لئے اسکی اہمیت، قدر و قیمت الگ ہوتی ہے۔ کبھی کبھار میں زندگی کے متعلق سوچتی ہوں کہ اسکی بھی اہمیت سماج کے ہر فرد کے لئے مختلف ہوتی ہے۔ ہمارے ارد گرد بے شمار لوگ ہیں جو اس زندگی کو ہی دنیا کی حقیقت سمجھتے ہیں۔ اپنے آس پاس آپکو بے شمار لوگ ملیں گے جو اس زندگی کو محض دھوکہ سمجھتے ہونگے جن کے لئے اصل زندگی اس زندگی کے بعد شروع ہونے والی ہے۔ ایسے لوگ بھی ہم نے دیکھے ہونگے جنکی زندگی ایک نظریئے کے گرد گھومتی رہتی ہے۔ کسی کے لئے اسکی اپنی زندگی ہی سب کچھ ہے تو کسی کے لئے اس زندگی سے جڑے افراد کی اہمیت ہے۔ یہی رویہ انسان نے وقت کے ساتھ بھی روا رکھا ہے کسی کے لئے سالوں کی اہمیت نہیں تو کسی کے لئے لمحے بھی انمول ہوتے ہیں۔

26 دسمبر 2018، یہ محض ایک تاریخ ہے، بے شمار لوگوں کے لئے بالکل ان عام دنوں سا جو انسان کی زندگی کے 1 سال میں 365 بار آ کر چلا جاتا ہے مگر جس طرح لمحے بھی انسان کے لئے اہمیت رکھتے ہیں یہ دن بھی مجھے ہر سال 365 بار قتل کرنے کے لئے کافی ہے۔

اس زمین پر چلنے، رینگنے، اڑنے یا تیرنے والی مخلوقات کی کوئی کمی نہیں، ہوسکتا ہے ہمارے شعور کے لئے بے شمار مخلوقات کا کوئی مول نا ہو۔ انسان جسے اشرف المخلوقات کہا گیا ہے ہوسکتا ہے ان گنت لوگوں کے لئے یہ بھی بے مول ہو مگر ایک انسان جسے میں جانتی ہوں جو اس کائنات کی ہر شے کو انمول سمجھتا ہے ان سے محبت کرتا ہے انکی عبادت کرتا ہے ۔ اس کے لئے یہ درخت، پتھر، پہاڑ، دریا، زمین آسمان سب انمول ہیں۔ اس کے لئے تو زمین پر چلنے والی چیونٹیاں ہوں یا صبح سویرے چہچہانے والے پرندے سب کے سب انمول ہیں۔ اور اسی لاشعوری نے اس کا اپنا مول بے مول کر دیا۔ آج وہ انمول شخص زندانوں میں نجانے کس اذیت سے زندگی بسر کر رہا ہے۔

میری ذات کو انسان کی اجتماعی زندگی میں ایک فرد کی قیمت کا اندازہ بھی اس بے مول شخص کی دوری کی وجہ سے ہی سمجھ میں آئی۔

انفرادی طور پر ایک انسان صرف جسم نہیں ہوتا، جو پیدا ہوتا ہے بڑھتا جاتا ہے چلتا ہے پھرتا ہے بولتا ہے اور ایک دن ہمیشہ کے لئے موت کی آغوش میں سو جاتا ہے بلکہ اس ایک انسان کے ساتھ معاشرے کی ہر شے جڑی ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ گزرے لمحوں کی قیمت بھی کارواں کے خزانے سے ادا نہیں ہو پاتا۔ اسکا اندازہ بھی مجھے راشد کی گمشدگی کے بعد ہوا کہ اس کے ساتھ گزرے لمحے کس قدر قیمتی تھے اسکی وہ باتیں، قدرت کے نظاروں کی باتیں، ہواوں کے رفتار کی باتیں، روتے بچے کی آواز میں سر ڈھونڈنے کی باتیں اور قلم سے نکلے دوات کے خوبصورتی کی باتیں، مجھے اسکی ہر بات یاد ہے ہر وہ بات جو اس نے مجھ سے مزاقاً یا سنجیدگی سے ذکر کیا ہو مگر ان انمول باتوں کا مول تب سمجھ آیا جب میری آنکھوں کے اس تارے کو مجھ سے بہت دور کر دیا گیا تھا۔

وہ محض ایک شخص نہیں ہے جو لاپتہ ہے وہ تو میری تمام زندگی کی جمع پونجی ہے وہ ایک خاندان کا مکمل اثاثہ ہے۔ اس لیئے تو اس خاندان کی سب سے بوڑھی عورت ملک میں لگے ہر مجمے میں پہنچ کر اس نور کے دیدار کی فریاد کرتی ہے اور اسی خاندان سے ایک چھوٹی بچی بچپن میں ہی باشعوروں کے شعور سے بالاتر ہو کر بولتی ہے چیختی ہے چلاتی ہے اور ایوانوں میں بیٹھے بہروں کو جگانے کی جدوجہد کرتی ہے اور وہ اکیلی بچی اس قدر پختہ ہو جاتی ہے کہ اکیلے ہی تین صوبوں کو پار کر کے اسلام آباد تک پہنچ جاتی ہے تا کہ اسکی آواز جی ایچ کیو کی دیواروں کو بھی پھلانگ سکے، مگر یہ دیواریں بے جان دیواریں، بے حس دیواریں!

سنا تھا کہ دیواریں بھی سانس لیتی ہیں اور جن دیواروں کے بیچ زندگی ہوتی ہے وہی دیواریں ہی پایہ دار ہوتی ہیں ورنہ کھنڈرات بن جاتی ہیں یعنی دیواریں بھی سانس لیتی ہیں وہ بھی زندہ ہوتی ہیں۔ مگر یہ بے حس دیواریں، نا میری آواز کو اندر بیٹھے ظالموں تک پہنچانے دیتی ہیں نا اس بوڑھی عورت کی اور نا اس چھوٹی بچی ماہ زیب کی۔

مجھے آج بھی یاد ہے جب راشد نے بارہویں جماعت کے امتحان دیے تھے تو میں اس سے اکثر پوچھتی تھی کہ آگے کیا کرنا ہے کہاں جانا ہے تو وہ مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیتا پتہ نہیں۔ چونکہ راشد کے سیاسی اور انسانی حقوق کی جدوجہد کرنے والے تمام معاملات سے ہم واقیفیت رکھتے تھے، اس لئے جب ہمارے قریبی رشتہ داروں کی جبری گمشدگی اور سیاسی دوستوں کی حب میں شہادت نے ہمیں خوف زدہ کر دیا تھا۔ اسی خوف نے راشد کو اپنی پڑھائی چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔ اسے یہاں سے دور ایک مہذب معاشرے کی تلاش تھی جہاں وہ زندگی بسر کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی لوگوں پر ہونے والے ظلم و جبر کو آشکار کر سکے اسنے عرب امارات کو بہتر جانا اور وہیں پناہ لینے کی ٹھان لی۔

آج میں سمجھتی ہوں کہ اس کی زندگی کی سب سے بڑی غلطی یہی تھی کیونکہ یہ بھی کوئی مہذب معاشرہ نہیں تھا بلکہ یہاں بھی میرے بھائی کے ساتھ بالکل ویسا ہی رویہ رکھا گیا جیسا پاکستان میں مجید کے ساتھ رکھا کیا تھا، جبری گمشدگی کے بعد 12 سالہ بچے کی مسخ شدہ لاش ہمیں تحفے میں ملی۔ آج اس مہذب عرب امارات نے میرے بھائی کو جبری طور اغوا کرنے کے بعد بغیر پاسپورٹ کے غیر آئینی اور غیر اخلاقی طریقے سے سفاک ریاست کے ہاتھوں دے کر ڈی پورٹ کر دیا۔

اسے کوئی حق نہیں دیا گیا کہ وہ اس مہذب معاشرے کی عدالت میں اپنی صفائی میں کچھ کہہ سکے اسے تو یہ بھی نہیں پتا تھا کہ اسکا جرم دراصل ہے کیا۔ وہ تو بس کام سے گھر ہی آتا اور گھر میں بھی بس، ایک لیپ ٹاپ اور چند کتابیں اسکی مزدوری کا ثمر تھیں۔ راشد کو جس طرح زبردستی ڈیپورٹ کیا گیا اور جس طرح ریاست پاکستان کی تمام مشینری بشمول پارلمینٹیرینز، میڈیا، بیروکریسی، عدالت ایک پیج پر کھڑے ہوئے اور پاکستان کے ہر چینل پر راشد کی گرفتاری اور پاکستان ڈیپورٹیشن کے عمل پر جشن منائے انٹرپول کا شکریہ ادا کرتے مگر چند دن بعد خواب سمجھ کر سب کچھ بھول گئے اور بیان دیا کہ راشد ہمارے پاس نہیں۔

یہاں میں سوچنے پر مجبور ہو جاتی ہوں کہ کیا واقعی دنیا میں عالمی انسانی حقوق نامی کوئی شئے یا اسکے تحفظ کے لئے کوئی تنظیم وجود رکھتی ہے یا یہ سب ڈھونگ ہے ڈرامہ ہے۔ ورنہ ایک نام نہاد مہذب ریاست انٹرپول کا نام لے کر راشد کو پرائیویٹ طیارے میں بٹھا کر اپنے ملک لاتا ہے اور دوسرا راشد کے نام سے ایک پرفارما بناتا ہے کہ میں اپنی مرضی و منشا کے ساتھ یہ ملک چھوڑ رہا ہوں اور یہ پوری دنیا، عالم اقوام خاموش تماشائی، انٹرپول (جسکا نام استعمال کر کے یہ تمام ڈرامہ رچایا گیا) خاموش تماشائی، یو این ایچ سی آر، اقوام متحدہ، ایمنیسٹی انٹرنیشنل خاموش تماشائی۔

فرق پڑا تو صرف اس سے جڑے لوگوں کو، اسکے خاندان کو، دوستوں کو اور چند انسانیت سے ہمدردی رکھنے والوں کو مگر میں مایوس نہیں نا ہی نا امید ہوں میں جانتی ہوں کہ انسانیت کی موت نہیں ہوئی بلکہ انسانیت اب تک زندہ ہے اور وہ دن آئےگا جب انسانیت سے ہمدردی رکھنے والوں کی جدوجہد کی بدولت ہی میرے بھائی کو اپنا جرم بتایا جائےگا اس کو عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کر اپنی بے گناہی ثابت کرنے کا موقع دیا جائےگا اور اک بار میں اپنے بھائی کی شفقت اسکی محبت اور اسکے ساتھ سے نوازی جاؤں گی۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں