فدائی سربلند کا خط – عائشہ بلوچ

1155

فدائی سربلند کا خط

تحریر: عائشہ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

میرے قوم کے نوجوانو! اُمید ہے کہ آپ سب لوگ خیریت سے ہونگے، میں عمرجان آج ایک خط لکھنے جا رہا ہوں، ہوسکتا ہے کہ ابھی آپ لوگ میرے لکھے ہوئے خط کو دیکھ کر مجھے پہچانتے تک نہیں اور میں اپنے تعارف کیلئے خط نہیں لکھ رہا ہوں۔ میرے خط لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ میں ایک ایسے راستے کا مسافر ہوں جس میں خون بہانا اور دینا پڑتا ہے ، میں اپنی سرزمین کی دفاع اور قوم کی ننگ و ناموس کیلئے دشمن کے خلاف جنگ لڑ رہا ہوں ، اور میں کاروانِ جنرل اسلم، مجید برگیڈ کے فدائیوں کے راستے کا دامن پکڑ کر امر ہونے کیلئے جارہا ہوں۔

مگر میرے امر ہونے کے بعد میں جانتا ہوں کہ بہت سے لوگ یہ کہتے ہیں کہ سربلند ایک نوجوان تھا اُسکو ابھی جانا نہیں چاہئیے تھا ، اور خط لکھنے پیغام دینے کا میرا مقصد بھی یہ ہے کہ یہ ایک قومی تحریک ہے میں اپنی مرضی اور خوشی سے تحریک کا حصّہ بننے کے ساتھ ساتھ کاروانِ فدائی کا حصّہ بن چکا ہوں، یہاں کسی نے مجھے زور زبردستی اس کاروان میں شامل نہیں کیا، اگر کسی نے مجھے اس کاروان میں شامل کیا، تو وہ ہے سرزمین کا عشق، وہ ہے میرے قوم کی بے بسی ، وہ ہے میرے سماج کی مظلومیت ، کیونکہ وطن ماں جیسی ہوتی ہے، فرق صرف اتنا ہے کہ ماں نو مہینے پیٹ میں رکھ کر پیدا کرنے کے بعد دودھ پلانے کے ساتھ ساتھ پال پوس کر بڑا کرتی ہے، ہر ایک ماں بیٹے کو خوش دیکھنا چاہتی ہے ، اور میری خوشی اس تحریک میں ہے، میری ساری خواہشیں تحریک اور اپنے مظلوم قوم سے جُڑے ہوئے ہیں۔

جب بیٹا بڑا ہوکر ہوش سنبھالتا ہے اور سمجھتا ہے کہ جس سرزمین کے اوپر میں زندگی گزار رہا ہوں وہ سرزمین بھی میری ماں ہے ، اور میری اس دھرتی ماں پر دشمن نے قبضہ کرکے قوم پہ ظلم کر رہا ہے ، اس لئے آج میں اپنی دھرتی ماں کی حفاظت کیلئے بلند پہاڑوں کی چٹانوں میں بیٹھ کر امر ہونے کی تیاری کر رہا ہوں ، اور میرے قوم کے نوجوانوں یہ ہم سب کا فرض ہے کہ ہم اپنی دھرتی کی دفاع کرکے اُسے آزاد کرانے کیلئے بلوچ قومی تحریک کا حصّہ بن کر جدوجہد کو جاری رکھیں ، ویسے تو ظلم و جبر برداشت کرنا کمال نہیں ہے بلکہ بے بسی اور مجبوری ہے ، اسی طرح جنگ بھی ایک شوق نہیں مجبوری ہے ، جس ریاست نے ہمیں مجبور کیا آج میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں یہ میرا ایمان ہے کہ اب نوجوان بیدار ہوچکے ہیں۔ ہمارا دھرتی اب آذاد ہونے والا ہے اور وہی ریاست بلوچ قومی تحریک سے شکست کھا چکا ہے، صرف ایک ڈھانچہ ہے اور اب اُس ریاست کیلئے کچھ نہیں بچا ، بس جدوجہد جاری رکھنا چاہئیے ، دشمن کے خلاف لڑنے کی صلاحیت اپنے اندر پیدا کرنا چاہئیے کیونکہ یہ راستہ بہت کھٹن ہے ، یہاں مشکلات کا سامنا کرنا بھی پڑتا ہے مگر ہم سب کو ڈٹے رہنا چاہئیے۔

دھرتی خون مانگتا ہے، قومیں ظلم سہنے سے آزاد کبھی بھی نہیں ہونگے اور ظلم و جبر سہہ کر گنگے سماج اور قوم کیلئے آزادی حاصل کرنا مشکل نہیں بلکہ ناممکن ہے ، میرے قوم کے نوجوانوں ، اگر اب آپ لوگ چاہتے ہو کہ سرزمین بلوچستان کے سینے میں لاشیں دفن ہونا ختم ہوجائے ، نوجوان عقوبت خانوں میں بند ہونے سے بچ جائیں ، ہماری ماں بہنیں رونے کے بجائے خوشی اور چین کی زندگی گزاریں ، سرزمین کی دولت اور معدنیات کے مالک خود بن جائیں تو پھر اس تحریک کو اپنا قومی تحریک سمجھ کر تحریک کا حصّہ بنیں، میں یہ بھی نہیں کہہ سکتا صرف بندوق اُٹھاکر پہاڑوں میں بھوک پیاس برداشت کرکے دشمن کے خلاف لڑیں ، دشمن کو شکست دینے کیلئے سینکڑوں راستے ہیں ، مگر سب سے پہلے آپ لوگوں کو پڑھنا چاہئیے حالات کا مشاہدہ کرنا چاہئیے چیزوں کا جائزہ لینا چاہئیے ، اور دوسری بات کہ اگر کوئی گولی سینے میں کھا کر شہید ہوجاتا ہے یافدائی کرکے امر ہوجاتا ہے فرق نہیں کیونکہ سب کا منزل و مقصد ایک ہی ہے۔

میں یہ بھی کہہ نہیں سکتا کہ قوم کے نوجوان آکر صرف فدائی حملہ کریں ، ہر ایک کا اپنا زاویہ ہوتا ہے ، مگر سرزمین اور قوم کے سینے کا جو درد ہے اسکو محسوس کرنے کیلئے سوچنا چاہئیے سمجھنا چاہئیے ، ہم سب کو حقیقت سے واقف ہونا چاہئیے ، قوم کی زمہ داری و بوجھ اپنے کندھوں پر اُٹھانا چاہئیے ، جنرل اسلم سمیت دیگر رہنماؤں کا فلسفہ اور نظریہ ہمیں بڑھانا چاہئیے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں