ریکوڈک کے خفیہ معاہدے قبول نہیں- وکلاء تنظیموں کا احتجاج

371

ریکوڈک کے خفیہ معاہدے کے خلاف منگل کے روز بلوچستان بھر میں عدالتی کارروائی کا مکمل بائیکاٹ کیا گیا، بلوچستان بار کونسل، ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن اور کوئٹہ بار ایسوسی ایشن نے ریکوڈک معاملے پر بلوچستان ہائی کورٹ سے بھی رجوع کرنے کا اعلان کیا –

بلوچستان بار کونسل کے وائس چئیرمین قاسم علی نے جرمن نشریاتی ادارے ڈی ڈبلیوسے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت اس خوشی فہمی میں مبتلا نہ رہے کہ ریکوڈک پر کسی خفیہ معاہدے میں وہ کامیاب ہو جائے گی ، بلوچستان کے عوام ماضی کی طرح اب خاموش نہیں رہیں گے ۔

قاسم علی کا کہنا تھا کہ کل اسمبلی کا جو ان کیمرہ اجلاس ہوا ہے اس تناظر میں قانونی پہلووں کا جائزہ لے رہے ہیں ضرورت پڑی تو سپریم کورٹ بھی جاسکتے ہیں۔

بلوچ قوم پرست رہنماء نوابزادہ حاجی لشکری رئیسانی نے ریکوڈک معاملے پر کہا کہ حکمران ملک کے دیگر وسائل کی طرح اب ریکوڈک کے حوالے سے بھی خفیہ معاہدہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں-

حاجی لشکری نے کہا کہ ریکوڈک ہمارا قومی سرمایہ ہے اور ہماری ائندہ نسلوں کی بقا انہی معدنی وسائل میں ہے، بند کمروں میں ریکوڈک سمیت بلوچستان سے متعلق ہونے والے کسی فیصلے کو ہم تسلیم نہیں کریں گے۔

نوابزادہ لشکری رئیسانی کا کہنا تھا کہ ان کمیرہ اجلاس نے حکومتی ڈرامے کا پول کھول دیا ہے۔

خیال رہے کہ ریکوڈک معاہدے کے حوالے سے گزشتہ روز بلوچستان اسمبلی کا دس گھنٹے طویل اِن کیمرہ سیشن بھی منعقد کیا گیا تھا ۔ اس اجلاس میں تمام ترکوششوں کے باجود حکومت ریکوڈک معاہدے کے حوالے سے اراکین پارلیمان کے تحفظات دور کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔

جبکہ حکومت بلوچستان کے ترجمان نے کوئٹہ میں جاری کئے گئے ایک بیان میں دعویٰ کیا ہے کہ ریکوڈک کے حوالے سے ان کیمرہ اجلاس اراکین اسمبلی کو اعتماد میں لینے کے لیے منعقد کیا گیا تھا ۔ بیان کے مطابق صوبائی اسمبلی کے ان کیمرہ اجلاس میں 42 اراکین نے شرکت کی جس میں انہیں ریکوڈک کے حوالے سے عالمی اداروں کے فیصلوں اور دیگر امور سے اگاہ کیا گیا۔

تاہم بلوچ قوم پرست جماعتوں نے ریکوڈک کے حوالے سے کسی قسم کی خفیہ اور نئے معاہدے کو تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے –
یاد رہے کہ ریکوڈک کا شمار پاکستان میں سونے اور تانبے کے سب سے بڑے ذخائر میں کیا جاتا ہے ۔ اس منصوبے کے حوالے سے پہلا معاہدہ 1993 میں کیا گیا تھا۔ بعد میں معاہدے میں شامل کمپنیوں میں کاروباری تبدیلیاں بھی دیکھی گئیں۔ پاکستانی سپریم کورٹ نے چند سال قبل قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی پرٹی سی سی یا ٹھیتیان کاپرکمپنی کے ساتھ ہونے والے ریکوڈک معاہدے کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔