بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی ترجمان نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ عوامی تحریکیں کوئی سانحہ نہیں ہوتی، بلکہ ان تحاریک کے پیچھے جبر و استحصال کا ایک پورا نظام کارفرما ہوتا ہے-
انہوں نے کہا کہ معاشی استحصال و سماجی بندشوں کے خلاف عوامی غم و غصہ آخر ایک سیاسی تحریک کی شکل اختیار کر جاتا ہے۔ جس کی حالیہ مثال ”گوادر حق دو“ تحریک ہے۔
گوادر حق دو تحریک کسی ذات یا شخصیت کی ملکیت نہیں بلکہ دہائیوں پر مشتمل استحصال، لوٹ مار، گُھٹن زدہ ماحول اور قتل و غارت کے خلاف عوامی بیزاری اور ظلم سے نجات کے خلاف ایک مضبوط عوامی اظہار ہے،جس کا سہرا گوادر کے مظلوم محنت کش بلوچ عوام کو جاتا ہے۔
مرکزی ترجمان نے مزید کہا کہ یہ عوامی تحریک مختلف مرحلوں سے گزر کر آج ایک مضبوط و توانا شکل اختیار کر چکی ہے، جسے سبوتاژ کرنے کی بھرپور کوشش کی جاتی رہے گی، لیکن تحریک کو زندہ رکھنے اور اس کی عوامی اساس کو بچانے کی ذمہ داری بلوچ نوجوانوں اور قوم دوست حلقوں پر جاتی ہے۔
تحریک کو زندہ رکھنے کی اولین شرط اس کی ایک عام بلوچ کے مفاد میں رہنا ہے، رد انقلابی قوتیں تحریک کو متنازع بنانے اور اسے ناکام کرنے کی خاطر مختلف حربے استعمال میں لاتی رہے گی تاکہ تحریک کا رخ موڑ کر اسے اپنے مفادات کی خاطر استعمال کریں اور اسے با آسانی آپسی تضادات کا شکار کر کے منتشر کیا جا سکے۔ تحریک کی ناکامی یا منتشر ہونے کے صورت میں اس کے منفی اثرات بلوچ سماج کو مجموعی طور پر متاثر کریں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس عوامی تحریک کا دائرہ کار بڑھ رہا ہے اور گوادر تحریک کے مثبت اثرات کی وجہ سے مکران میں ایک مزاحمتی سیاست کا آغاز ہو رہا ہے جو مجموعی مظالم پر جمود کو توڑنے کےلیے ایک نیک شگوں ہے، مگر یہاں انقلابی قومی قیادت کے بحران اور فقدان کی وجہ سے عوامی تحریک کو فقط شخصیات کے گرد گھمانے کی کوشش کی جارہی ہے جو تحریک کی ناکامی کا سبب بنے گی. بی ایس او کے مرکزی ترجمان نے کہا کہ اس وقت اس تحریک کو مزید توانا کرنے کی ضرورت ہے اور اس کا دائرہ کار بڑھا کر بلوچستان کی سطح پر پھیلانے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ آج کے وقت میں عوام کو اپنی طاقت کا شعور ہونا لازمی ہے تاکہ نچلی سطح سے قیادت آکر تحریک کی رہنمائی کرے اور اسے منزل مقصود تک پہنچائے،عوامی لیڈرشپ کی عدم موجودگی میں آسانی سے تحریک کو منتشر کیا جاسکتا ہے اور نہ صرف یہ بلکہ کوئی بھی مذہبی و فرقہ پرور رجحان غالب آکر قومی استحصال کا موجب بن سکتا ہے. اس کےلیے مسلسل عوامی دباؤ کو بڑھانا چاہیے تاکہ یہ تحریک کسی مذہبی رنگ میں نہ ڈھلے اور نہ ہی کسی موقع پرست جماعت کے ہاتھ استعمال ہو جو فقط اپنا حصہ بٹورنے کیلئے اس کی بولی لگائے۔
ترجمان نے مزید کہا کہ یوسف مستی خان کی گرفتاری کی شدید مذمت کرتے ہیں. ایسے اقدامات تحریک کو قطعی کمزور نہیں کرسکتے، بلکہ عوامی جذبات کو مزید تقویت دے گا. ایسے اقدامات حکومتی بوکھلاہٹ کا منہ بولتا ثبوت ہے جو عوامی رہنماؤں کی عوام سے خطاب پر بھی خوف زدہ ہوجاتی ہے۔
مرکزی ترجمان نے آخر میں کہا کہ بی ایس او اس وقت کسی جماعت یا فرد کی بجائے عوامی تحریک اور عوامی مطالبات کے ساتھ کھڑی ہے جو جبر و استحصال ظلم و بربریت کے خلاف ہیں۔ بی ایس او اس درست و جائز عوامی بیانیے کو ہر ممکن طاقت و توانائی بخشے گی جو قومی استحصال اور ظلم و جبر کے خلاف سیاسی مزاحمت پر مبنی اظہار ہو۔