تربت سول سوسائٹی کی جانب سے بلیدہ میں قتل کیے گئے نوجوان سراج صالح کی فیملی کو انصاف دلانے اور قاتلوں کی گرفتاری کے لیے جمعہ کے روز تربت پریس کلب کے سامنے مظاہرہ کیا گیا –
مظاہرین نے پلے کارڈز اٹھائے سراج صالح کے قتل کی مذمت کی اور فوری طور پر قاتلوں کو گرفتار کرنے کا مطالبہ کیا۔
مظاہرہ سے خطاب کرتے ہوئے تربت سول سوسائٹی کے کنوینر گلزار دوست نے کہا کہ بلوچستان میں نوجوان نسل کا قتل اغوا اور ان پر ٹارچر ایک تسلسل کے ساتھ جاری ہے، اکثر علاقوں میں ڈیتھ اسکواڈ کو یہ ذمہ داری دی گئی ہے کہ مخالف سیاسی و سماجی کارکنوں اور طالب علموں کو قتل کریں ان پر تشدد کریں یا ان کو ماورائے آئین و قانون اٹھا کر لاپتہ کریں ایسے غیر قانونی اقدامات کی وجہ سے بلوچستان میں کوئی باشعور شخص خود کو محفوظ نہیں ہے-
انہوں نے کہاکہ ڈیتھ اسکواڈ جہاں سرگرم ہیں ان کو سرکاری آشیرباد حاصل ہے ان کے پاس بغیر لائسنس بندوق ہیں اور آزادانہ گھومتے پھرتے ہیں مگر ان کے خلاف قانون یکسر خاموش ہے کیونکہ کہ ان کو حکومت کی اپنی سرپرستی حاصل ہے یہ عناصر ہمارے سماج میں بے لگام گھوڑے کی مانند دھندناتے پھررہے ہیں-
مظاہرین کا کہنا تھا کہ گذشتہ دو سالوں کے دوران صرف بلیدہ میں ایسے کئی نوجوان قتل کردیے گئے جن کا الزام ایسے عناصر پر لگایا گیا جن کو سرکاری اور ریاست کی طرف سے کھلی چوٹ دی گئی ہے نوجوان سراج صالح کا قتل ثابت کرتی ہے کہ قاتلوں کو کس کی پشت پناہی مل رہی ہے کیونکہ قاتل سرعام قتل کا اعتراف کررہا ہے لیکن قانون اس کے خلاف اس لیے بے حرکت ہے کہ وہ قانون سے بھی بالاتر ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر سراج صالح کے اصل قاتل کو گرفتار نہیں کیا گیا تو تربت سول سوسائٹی اس پر بھرپور آواز اٹھاتی رہے گی۔
مظاہرہ سے بی ایس او کی مرکزی کمیٹی کے رکن کریم شمبے، بی ایس او پجار کے ضلعی رہنما نوید تاج، بی ایس او کے سابقہ ضلعی آرگنائزر عقیل جلال اور تربت سول سوسائٹی کے کارکن ناکو ثناءاللہ جمیل عمر و دیگر نے بھی خطاب کیا-
مظاہرین کا کہنا تھا کہ کس قانون کے تحت غیر ریاستی عناصر کو بندوق اٹھاکر لوگوں کے قتل کی اجازت دی گئی قاتل نے سوشل میڈیا پر اپنے جرم کا اعتراف کرتے ہوئے کہا ہے کہ سراج کو ملک اور مذہب کے خلاف باتیں کرنے پر قتل کیا گیا-
انہوں نے کہاکہ کس قانون نے ایک عام شہری کو یہ اختیار دیا ہے کہ وہ ملک اور مذہب کے خلاف بولنے پر کسی کو قتل کرے یہ عمل انارکی اور خانہ جنگی پیدا کرنے کا سبب بنے گا اگر سرکاری اور ریاستی سطح پر اس کو لگام نہیں دیا گیا تو کوئی شخص اس آگ سے نہیں بچے گا۔