بی ایس او آزاد ایک سیاسی درسگاہ ۔ نورا گل

388

بی ایس او آزاد ایک سیاسی درسگاہ

تحریر: نورا گل

دی بلوچستان پوسٹ

مادروطن و قومی تشخص سے بیگانہ، قومی رہنماؤں سے نا آشنا میرا شعور اساطیری سوچ پر منحصر تھی ۔

2006 میں جب نواب اکبر بگٹی کو انتقام، جبر اور نفرت کی بنا پر شہید کیا گیا، میں اس وقت پراٸمری درجے کا طالب علم تھا اس سانحے نے بلوچ مرد و خواتین یا بزرگ ہر طبقے کو سوچنے پر مجبور کیا ۔

میں جس ادارے میں زیر تعلیم تھا وہاں روایتی وقباٸلی سوچ، شخصیت پرستی اور مذہبی فرقہ واریت کا گہرا اثر تھا ،اس ماحول میں گھل مل جانا تعجب نہ تھا بلکہ فطری بات تھی ۔

لیکن جہالت کا اندھیرا کب تک قاٸم رہے گا ایک دن سحر تو ہونی ہے ۔ جس طرح روشنی راستہ تلاش کرتی ہے اسی طرح انقلاب بھی راستہ تلاش کرتی ہے ۔ وقت و حالات جہالت ،ظلم و جبر کے زیر سایہ کب تک رہینگے یہ فیصلہ انقلابی عزاٸم پہ منحصر ہے کہ غلام کی قبضہ گیر سے نفرت کی نوعيت اور نیشنل ازم کے جذبے سے کتنے سرشار ہیں۔

انقلابی جہد کار انقلابی افکار سے لیس مسلسل مزاحمت سے اس تاریکی کو روشنی میں تبدیل کرتے ہیں ۔

اپنی دنیا میں مشغول جہاں پہلی پوزیشن لینے کی فکر رہتی تھی یہ گمان بھی نہ تھا کی اپنا وطن بھی ہے جو قبضہ گیر کے زیر اثر ہے ۔ جن تعلیمی درسگاٶں میں محمد علی جناح کو قومی ہیرو کے طور پر پیش کیا جاۓ یقیناً وہاں قومی سوال کا تصور نہیں ہوتا ۔ قبضہ گیر کے اس تعلیمی نظام پر عقیدہ قاٸم کیے ہوۓ ہم اپنے حقیقت سے بیگانہ تھے۔

ہم وہ بد نصیب لوگ ہیں کہ ہمیں شعور دینے کیلۓ ہمارے عظیم رہنماٶں کو اپنے جان کا نظرانہ دینا پڑا۔ حقیقت میں یہ امر لازمی بھی ہوتا ہے کہ قربانیوں کے بغیر قوم کو باشعور نہیں کرسکتے ۔

وہ تاریک دن جب بلوچ آجوٸی کا بہادر رہنما ریاستی حملے میں شہید ہوا ، ریاست نے تو کامیابی کا جشن منایا ہوگا لیکن وہ ناآشنا تھا کہ اسنے بالاچ مری کو جسمانی طور پر جدا کیا لیکن اسکے نظریے کو ختم نہ کرسکا ۔ یہ وہ المناک واقعہ جس نے ہم جیسے لاشعور لوگوں کو شعور مہیا کردی لیکن سوال یہ کہ بالاچ مری کے شہادت کے بعد اس بیانیہ کو اس نظریے کو کس نے گھر گھر پہنچایا ؟ ایک فرد نے یا ایک طبقے نے؟ جی نہیں ایک تنظیم نے وہ تنظیم جس نے بلوچ کو پارلیمانی سیاست سے دور رکھا وہ تنظیم جس نے بلوچ طلبا ٕ کی سیاسی پرورش کی اور یہ تنظیم اب آجوٸی کے نظریے پر کاربند سر پہ کفن باندھ کر بلوچ کو شعور دینے نکلتا تھا ۔ اور وہ تنظیم بی ایس او آزاد ہی ہے ۔

بی ایس او آزاد کے سرگرمیوں نے میرے نظریات کو درست سمت پر متوجہ کردیا۔

میرے گھر کے دیوار پر لکھا ہوتا تھا “کامریڈ بشیر زیب ” اب حیرانی اس بات پر نہیں تھی کہ بشیر زیب کیا ہے یقیناً یہ تو ایک نام ہے لیکن یہ پتا نہیں تھا کہ بشیر زیب کون ہے ۔ حیرانگی والی بات یہ تھی کہ کامریڈ کیا ہے ؟ اب روایتی و ذاتی سوچ سے بالا ہوکر میں سوچنے پر مجبور ہوا تھا ۔ محلے میں ایک وال چاکنگ دیکھنے کو ملا جہاں لکھا گیا تھا “گلی گلی نگر نگر اللہ نظر اللہ نظر ۔ ان وال چاکنگ سے میرے زہن میں اک شعور جاگ رہا تھا جس سے میں لا علم تھا ۔

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگناٸزیشن ایک طلبا ٕ تنظیم جو بلوچ نوجوانوں کو شعور دینے کیلۓ مسلسل عمل میں ہے لیکن یہ کون ہے ؟

اپریل 2009 شاید وہ دن تھا جب بی ایس او آزاد کے جہدکاروں کو دیکھنے کا موقع ملا لیکن کیا پتا تھا کہ مادروطن کے عظیم فرزندوں کو دیکھنا نصیب ہوگا لیکن ایسے دن پر جب وہ غصہ اور جذبات سے بھرے ہونگے ۔

کیا غصہ کیسی جذبات ؟
سکول کے مین گیٹ پر زور سے دستک ہوٸی ،شورشرابہ ہوا اور سکول میں بھگدڑ مچ گٸی ۔ سکول انتظامیہ نے چھٹی دے دی ۔ جب ہم باہر نکلے تو سرخ جھنڈے ہاتھ میں لیۓ طلبا ٕ پاکستان اور پنجابی فوج کو گالی دے رہے تھے ۔ سکول کے پاس بڑے بھاٸی کا دکان تھا میں جب وہاں پہنچا تو بھاٸی کی دکان بند تھی اور وہ باہر کھڑا میرے انتظار میں تھا ۔ میں وہاں پہنچ کر پوچھنے لگا کہ ماجرہ کیا ہے تو بھاٸی نے کہا کہ تین بلوچ رہنما واجہ غلام محمد بلوچ ،شیر محمد بلوچ اور واجہ لالا منیر کو پاکستانی فوج نے ہیلی کاپٹر سے پھینک کر شہید کیا ہے اور یہ طلبا ٕ بی ایس او آزاد والے ہیں ۔ اور کہنے لگا کہ غلامی کی زندگی ایسے ہی ہوتی ہے ان ظالموں کے زندانوں میں تو ہماری بہن زرینہ مری بھی قید ہے ۔ میں نے سوال کیا کہ کون زرینہ مری تو جواب دیا کہ لڑکے بہت جذباتی ہیں پولیس سےجھڑپ ہوگیا تو حالات مزید خراب ہونگے بعد میں بتاٶنگا ۔

بی ایس او آزاد کے وطن زادوں کو جذباتی کہنے والے اپنی خامیوں کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں ۔

اگر آج میں بلوچ وطن، قوم ، تاریخ ،تہذیب ،ثقافت اور بلوچ وطن کی جغرافيہ سے آگاہ ہوں تو یہ انہی وال چاکنگ ، مظاہرے اور لٹریچر اور بی ایس او آزاد کے رہنماٶں اور کارکنان کی قربانیوں کا نتیجہ ہے ۔

مجھے زندگی بھر اس بات کا افسوس رہے گا کہ کیوں میں ان وطن زادوں کے کاروان میں شامل نہیں ہو سکا ۔ حقیقت میں آج بھی میں بی ایس آزاد کے رہنماٶں کے تقاریر اور انٹرویوز سے تربیت حاصل کر رہا ہوں اور انکے لٹریچر سے اپنے نظریات کو پختہ کر رہا ہوں ۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں