بک رویوو : امیلکار کیبرال /مصنف :مشتاق علی شان
تحریر : بیلہ بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
کتاب میں میں مختلف عنوانات
1. افریقہ گنی بساو اور کیبرال
2.کیبرال کے افکار
.3 ثقافت اور قومی آزادی
اس کتاب کی رویوو انہی عنوانات کے بنیاد پر کی گئی ہے.
مشتاق علی شان کی یہ کتاب افریقہ کے ایک جزیرے گنی بساو کی آذادی میں اہم کردار ادا کرنے والے ان کے ایک آزادی پسند رہنما ” امیلکار کیبرال ” کی زندگی کے بارے میں ہے. اس کتاب میں مشتاق علی شان گنی بساو کے آزادی کے راہ میں آنے والے مختلف رکاوٹوں اور مشکلات کے ساتھ ساتھ کیبرال کے زندگی کے بارے میں بھی بتاتے ہیں. یہ کتاب افریقہ پر ہونے والے ظلم کی داستان سے شروع ہوتا ہے.افریقہ پر پانچ صدیوں تک پرتگیزی نوآبادیات نے اپنا قبضہ جماۓ رکھا اس دوران انہوں نے افریقی عوام پر جو مظالم ڈھائے ان کو ایک کتاب میں پوری طرح لکھنا ناممکن ہے ان پانچ صدیوں کے دوران تقریباً 120 ملین افریقی لوگوں کو سمگل کرکے شمالی امریکہ اور دوسرے انگریز علاقوں میں لے جایا گیا۔ اس صدی کے تاریک دور میں افریقہ میں صرف 11 اسکول دیے گۓ، ان میں بھی ایسے لوگ پڑھ پاتے تھے جو پرتگیزوں کے حمایت یافتہ تھے اور اس دوران صرف دو ہسپتال دیے گئے وہ بھی صرف پرتگیزوں کے زخمیوں کا علاج کرتے تھے اس دوران آۓ روز لوگوں کے گھروں میں گھس کر ان کو گرفتار کرنا اور ان کے گھروں کو آگ لگانا معمول کی بات بن چکی تھی۔ تو یہ تھے وہ جاہل قبضہ گیر جو افریقہ کو تہذیب سکھانے نکلے تھے. اب ہم انہی قبضہ شدہ جزیروں میں سے ایک کا زکر کرنے جا رہے ہیں اس جزیرے کا نام گنی بساو ہے اور اس کو آزادی کے قریب لا کر شہید ہونے والے کامریڈ کا نام امیلکار کیبرال ہے.
امیلکار کیبرال 12 ستمبر 1924 کو گنی بساو میں پیدا ہوئے ان کو تعلیم کے لئے لزبن کے ایک مشہور یونیورسٹی institute of superior agronomy میں موقع ملا۔ اس کے پیچھے انکے والد کا پرتگال قابض کے ساتھ کام کرنے کا ہاتھ تھا۔ پرتگالی شاید اسی غلط فہمی میں تھے کہ وہ اس بڑی یونیورسٹی میں پڑھائی کا موقع دے کر کیبرال کو ایک سامراج دوست انسان بنایں گے لیکن کیبرال کو اس یونیورسٹی میں کئی افرقی انقلاب دوست انسانوں کی صحبت نصیب ہوئی جن میں موزمبیق کے راہنما قابلِ ذکر ہیں.
1952 میں وطن واپسی پر انہوں نے ایک سیاسی تنظیم کی بنیاد رکھی جس کا نام PAIGCرکھا اس نام کا مطلب( party for independence of guniea basao and cape wardae) اس نام کے پیچھے ایک مقصد تھا کیونکہ اس سے پہلے یہاں ایک تنظیم کئی مزہبی اور قبائلی طبقے ہونے کی وجہ سے ناکام ھوا تو کیبرال نے اپنے آپ کو کسی ایک طبقے یا گروہ کا نہیں کہا بلکہ پورے افریقہ کا بیٹا کہا اور اس نعرے کو اپنے پارٹی کا نعرہ بنایا کہ افریقہ ایک ہے. اپنے سیاسی سفر کا آغاز انہوں نجت شہر کے مزدور طبقے سے کیا اس کے ساتھ ساتھ وہ دیہاتوں میں پرتگیز کی طرف سے زرعی شعبے کے افراد کے طور پر اپنے سیاسی سرگرمیوں کو فروغ دے رہے تھے. اسطرح وہ پرتگیزی نوکری اور پییسے کو پرتگیز کے ہی خلاف استعمال کر رہے تھے. یہاں لینن کا ایک مشہور فقرہ پورا اترتا ہے اگر۔ حالات برے ہوں تو ایک انقلابی کیچڑ میں رینگ کر بھی اپنا مقصد حاصل کر لیتا ہے.
لینن اور کیبرال میں فرق یہ تھا کہ کیبرال مزدوروں پر زیادہ توجہ مرکوز کیے ہوئے تھے جبکہ لینن نے ہمیشہ کسان طبقے کو انقلاب کی بنیاد کہتا ہے. کیبرال نے لینن کے فلسفے کا مشاہدہ کرکے یہ اخذ کیا کہ گنی بساو اور کیل وردے میں چونکہ زمیں زرخیز ہیں لہذا یہاں کسان کے نسبت مزدور طبقے کو پہلے آگے لانا ہوگا.اور نیم بورژوازی طبقے کو کیبرال اپنے تحریک کے لیے مجبوری سمجھتے تھے حالانکہ وہ انکی موقع پرستی اچھی طرح سمجھتے تھے.
3 سال تک کیبرال کی پارٹی امن کے فلسفے پر کام کرتی رہی اور آہستہ آہستہ مقبول ہوتی گئی لیکن جب 1959 میں مزدوروں کے ایک احتجاج کے دوران ان پر پرتگیزی فوج نے اندھا دھند فائرنگ کر کے ظلم کے خلاف آواز اٹھانے والے مزدوروں میں سے 100 کو زخمی کر ڈالا اور 50 کے قریب لوگوں کو شہید کر ڈالا. اب لینن کے مشہور فقرے only violnce can end violence کو کیبرال نے عملی جامعہ پہنانا تھا اس پروٹسٹ کو pigigui کا نام دیا گیا اس کے بعد کئی راہنما گرفتار ہوئے اور کیبرال قریبی افریقی ملک گنی بساؤ چلا گیا جہاں اپنے گوریلا تنظیم کی بنیاد رکھی بعد میں یہاں کے حالات خراب ہونے کے باعث یہ مرکز گھانا منتقل ہوا یہاں اس گوریلا تنظیم کا لائحہ عمل کیبرال کا یہ فقرہ تھا کہ جسطرح ہم ہانڈی کے باہر چاول نہیں پکا سکتے بالکل اسطرح ہم ملک سے باہر ملک کا جنگ نہیں چلا سکتے.
1972 تک ملک کا 82 فیصد حصہ آزاد ہوگیا تھا ایک سا ل کے دوران تقریباً 47 گوریلا حملے ہوئے، جس میں 50 پرتگیز ی فوجیوں کے بدلے صرف ایک کامریڈ شہید ہوا. کیبرال کہتے ہیں کہ ہمارے تحریک میں خوشی کی بات یہ ہے کہ ہم نے جو علاقے آزاد کرائے ہیں وہاں ہم نے پورے انتظامی نظام بنانۓ ہیں اور ان علاقوں کو خوب ترقی دی ہے۔ ہماری کامیابی یہ نہیں ہے کہ ہم نے دشمن کو بھگایا ہے بلکہ ہماری کامیابی یہ ہے کہ ہم نے اپنے آزاد کئے علاقوں میں ترقیاتی کام کیے ہیں. یہ سب دیکھ کر سامراجیت کے باپ امریکہ کو سکون نہ آیا اس نے افریقی جزیروں کے اس انقلاب کو اپنے لیے ایک نقصان سمجھا تو اسے ناکام کرنے کےلیے tactics استعمال کرنے لگا۔
امریکہ نے یہاں بھی نیم بورژواری طبقے کو نشانہ بنایا اور انکے موقع پرست طبیعت کو جانچ کر ان کو کیبرال کے خلاف ہونے پر مختلف مراعات کی لالچ دیکر آمادہ کر لیا.
یہاں یہ بات قابل زکر ہے کہ ہر نیم بورژوار موقع پرست نہیں ہوتا جیسا کہ ڈاکٹر نجیب اللہ صاحب ایک نیم بورژوار تھے لیکن آخر تک افغان انقلاب سے وفاداری نبھاتے رہے۔
1973 کو جب کچھ ماہ بعد کیبرال آزادی کا اعلان کرنے والے تھے تو کیبرال کے اپنے ہی سپاہیوں کے ہاتھ کیبرال کی شہادات واقع ہوئی اسکے بعد کیبرال کے بھائی لوس کیبرال نے ان کے تحریک کو عملی جامہ پہنایا اور گنی بساو 24 ستمبر 1973 کو آزاد ہوا لیکن اسکی آزادی امریکہ کو بالکل بھی پسند نہ آئی کیونکہ امریکہ شروع ہی سے ایسے انقلاوں کو اپنے لیے خطرہ سنجھتا آ رہا ہے گنی بساو کو بھی آج تک پوری طرح سنبھلنے نہ دیا.
کیبرال scientific soclism کو مانتے والے لیڈر تھے وہ سمجھتے تھے کہ سوشلزم کا جائزہ لے کر اسے وقت اور حالات کے مطابق عمل میں لانا چا ہیۓ وہ اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ جب تک کسی علاقے میں سیاست کی گنجائش موجود ہے، تب تک وہاں پر بندوق کی بات کرنا نامناسب ہے اور وہ انقلابی لفاظی سے گریز کرتے تھے۔
کیبرال نے ایک دفعہ ایک تقریر میں کہا کہ “جب گھر جل رہا ہو تو ڈھول بجانے سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا.” یہ کیبرال نے اس وقت کہا تھا جب گنی بساو میں سیاست کی گنجائش صفر تھی کیبرال نے کہا کہ ہم نے یہ گوریلا تنظیم سامراج کے خلاف صرف آزادی کےلئے نہیں بنایا بلکہ سامراج کے خلاف جنگ کے لیے اسکی بنیاد رکھی ہےاور اسے ثابت بھی کر کے دکھایا.
کیبرال کا سرکاری نوکری کرنا بھی ان انقلابیوں کےلیۓ ایک مثال ہے جو خود تو کچھ نہیں کرتے اور دوسروں کو بھی کرنے نہیں دیتے سرکار کے پیسے کو اگر سرکار کے خلاف اور ایک تنظیم کی بھلائی کےلئے استعمال کرنے کےلیۓ اگر ایک نوکری بھی کی جائے تو کیا حرج ہے؟ البتہ ہر انقلاب کے ground realties مختلف ہو تے ہیں.
کتاب کے آخری حصے میں قومی ثقافت کی بات ہوتی ہے ایک سامراج کے پاس مختلف طریقے ہوتے ہیں کسی ملک کی ثقافت پر قبضہ کرنے کے لیے ایک تو یہ کہ وہ کہے گا کہ ان کا یعنی colonized کا کوئی ثقافت تھا ہی نہیں اور سب کچھ انہیں سامراج دے گا۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ قبضہ گیر colonized ثقافت کو پروموٹ کرے گا تاکہ انہیں غلامی پر راضی کرے۔ دوسرا طریقہ تو ناممکن ہے کیونکہ ایسا کرنے سے سامراج کا مقصد ہی ختم ہوجائے گا اس لیے سامراج دوسرا tactics استعمال کرتا ہے یعنی colonized کو یہ تسلیم کرواتا ہے کہ انکا کوئی تہزیب ثقافت تھا ہی نہیں۔
اب سامراج کے ان طریقوں کو ناکام کرنے کےلیۓ لوگوں میں سیاسی شعور اور انکےثقافت سے محبت کو پروان چڑھانا ایک سیاسی ورکر کی زمہ داری ہے اپنے ثقافت کی ترقی اور وقت کے ساتھ ساتھ اس میں مختلف سائنٹفک تبدیلیاں لانا ہی ایک قوم کی ترقی کےلیۓ لازم ہے جیسا کہ اگر ایک قوم کے تاریخ میں ہے کہ وہ صرف تلوار سے جنگ لڑتے آ رہے ہیں اور وہ اسی بات پر قائم رہینگے کہ یہ ہماری ثقافت ہے اور ہم بندوق والے دشمن سے بھی لڑنے کےلیۓ تلوار ہی استعمال کریں گے تو اسطرح کی احمقانہ چیزوں کا خاتمہ اور وقت اور حالات کے ساتھ ساتھ تبدیلیاں ہی ایک قوم کی ترقی اور آذادی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں..
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔