بلوچ یکجہتی کمیٹی کے ترجمان نے انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقعے پر بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیوں پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیاں سنگین سطح پر ہیں، عدالیہ کو بلوچستان میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلا ف اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
گوادر،اسلام آباد اور کراچی میں ہونے والے پروگرامز سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پورا بلوچستان احتجاج پر ہے۔ عدلیہ کو بلوچستان میں ہونے والے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر اپنی خاموشی توڑ کر پاکستان کے آئین کے مطابق سزا و سزا کے فیصلے پر عمل کروانا ہوگا۔ بلوچستان میں جاری انسانی حقوق کی پامالیاں پاکستان کی اپنی آئین کی خلاف ورزیاں ہیں اگر یہ سلسلہ ایسے ہی چلتا رہا تو مستقبل میں حالات کنٹرول سے باہر ہو جائیں گے۔ لوگ شدید مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں، پانی کیلئے بھی لوگ اب ہزاروں کی تعداد میں سڑکوں پر نکل پر مجبور ہو چکے ہیں۔ گوادر میں آج ہزاروں افراد اپنی عزت اور بنیادی حقوق کیلئے نکل چکے ہیں مگر عدلیہ اور ریاستی زمہ دار اداروں نے بلوچستان کو مکمل طور پر نظرانداز کیا ہے۔
ترجمان نے کہا کہ بلوچستان میں گزشتہ 2دہائیوں سے انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں، جبری گمشدگی، ماوارئے عدالت قتل، طالب علموں کی گمشدگی اور قتل لوگوں کے روزگار کی تباہی سمیت بلوچستان کے لوگوں کا استحصال جاری ہے لیکن ریاست کا کوئی بھی ادارہ بلوچستان کے مسائل کو حل کرنے میں دلچسپی ظاہر نہیں کر رہی ہے جو بہت بڑا المیہ ہے۔ بلوچستان میں جاری سنگین انسانی خلاف ورزیوں پر پاکستان کی میڈیا، مین اسٹریم کی سیاسی جماعتیں، عدلیہ سمیت انسانی حقو ق کے اداروں نے بھی خاموشی اختیا ر کرلی ہے۔ بلوچستان کے کونے کونے میں لوگ بدترین مظالم کا سامنا کر رہے ہیں مگر کوئی بھی ریاستی ادارہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیوں پر بات نہیں کر رہا اور انہیں روکنے کیلئے کوئی بھی عملی اقدامات دیکھائی نہیں دے رہا۔ ریاست کے اداروں کی بنیادی زمہ داری ہے کہ وہ شہریوں کے حقوق کی تحفظ کریں مگر شہریوں کے حقوق کی تحفظ کے بجائے تمام اداروں کا رویہ بلوچستان کے حوالے سے منفی ہے جس کا ردعمل آج بلوچستان بھر میں ہمیں دیکھائی د ے رہا ہے۔
ترجمان نے آخر میں کہا کہ ایک طرف دنیا بھر میں انسانی حقوق کا دن منایا جا رہا ہے جبکہ دوسری جانب بلوچستان میں انسان اپنی حقوق کیلئے سراپا احتجاج ہیں مگر ان کے حقوق کی تحفظ کے بجائے تمام ادارہ بلوچستان میں انسانی حقو ق کی خلاف ورزیوں میں پیش پیش ہیں۔ عدالت عالیہ کی زمہ داری ہے کہ وہ بلوچستان میں ہونے والے ان زیادتی کے خلا ف کردار ادا کرتے ہوئے اپنی بنیادی زمہ داریوں کو پورا کریں۔
معاشی حقوق سے جینے کا حقوق تک چھین لیا گیا ہے لوگ ریاست سے جینے کیلئے احتجاج پر ہیں مگر انہیں حقوق فراہم کرنے کے بجائے انہیں مزید دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے جس کی واضح مثال بزرگ بلوچ رہنماء یوسف مستی خان کی گرفتاری ہے۔ برسراقتدار حکمران اور عدلیہ کی زمہ داری ہے کہ وہ بلوچستان میں سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں ہونے والے سنگین انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو روکنے کیلئے اپنا بنیادی کردار ادا کریں۔