بلوچستان سراپا احتجاج ہے
تحریر:حاجی حیدر
دی بلوچستان پوسٹ
گزشتہ کئی سالوں سے استعماریت کا شکار بلوچ وطن مختلف مصیبتوں میں گھرا ہے۔ بلوچ اسٹوڈنٹس کی جبری گمشدگی سے لے کر بلوچ دانشوروں کا قتل، عورتوں کی تذلیل یا پھر نوجوانوں کی مسخ شدہ لاشیں ہوں لیکن ان سب مشکلات کے علاوہ بھی اگر آج تک کسی نے بلوچ قومی شعور کا پرچار کیا ہے تو وہ بلوچ اسٹوڈنٹس ہیں۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ سامراجی قوتوں کے خلاف جس شد ومد سے بلوچ طلبا نے مزاحمت کی ہے شاید یہاں کی پارٹیوں تک نے بھی نہیں کی ہے۔
بلوچستان میں سامراجی طاقتوں نے جس طرح گریٹ گیم کھیلا ہے اور کھیل رہے ہیں جو ہم جیسے لوگوں کی سمجھ سے بالاتر ہے لیکن ایک حقیقت بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ جیونی زر سے لے کر گوادر کی ساحل تک ایک انچ زمیں بھی لوگوں کیلئےنہیں بچی ہے۔
اور یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان میں جبری گمشدگی کے شکار افراد کی تعداد بھی بلوچستان کے ہی نام پہ آتا ہے اور تو اور اب بلوچ قوم کی محکومیت اور لاپتہ افرادوں کی آنسوؤں کو بھی بورژوا سیاسی جماعتوں نے privatize کرکے بالادست سے داد وصول کررہے ہیں جس میں کسی سیاسی جماعت کی 6 نکات اب بھی ہمیں یاد ہیں۔ خیر ان نسل پرستانہ رویوں کی نشاندہی کرکے ہم تو اب شکایت کرنے سے بھی مایوس ہوچکے ہیں۔
اگر حقیقی بلوچستان کی شکل دیکھنا چاہتے ہو تو کوئٹہ کی سیکریٹریٹ کے احاطے کے علاوہ باقی پوری بلوچستان میں جاکر دیکھیں کس قسم کا تشدد ہے، کس قسم کا وائلنس ہے.
(This State structure is brutal)
خیر بلوچستان میں لگی اس آگ کو تر و خشک کی تمیز کہاں تھی، وہ یہ نہ دیکھتی کہ معصوم کون، بوڑھا کون، جوان،ڈاکٹر، ادیب اور دانشور کون ؟!! جہاں ایک طرف لاپتہ افراد اپنے پیاروں کی بازیابی کیلئے احتجاج کررہے ہیں تو دوسری طرف بلوچ طلبا اپنی اپنی بنیادی حقوق کیلئے شال کی اس یخ بستہ ہواوں اور تاریک راتوں میں بیٹھے حکومت وقت سے اپنے تعلیمی سرگرمیوں کی رجسٹریشن کیلئے احتجاج کر رہے ہیں۔
اس میں کوئی دو رائے نھیں کہ جنگ صرف دشمن سے ہوگی، دوستوں سے صرف اتحاد ہوگا۔ اس لیئے تمام طلباء تنظیموں سمیت
وکلاء، اساتذہ اور دانشور ایک ہوکر کے بلوچستان میں سراپا احتجاج کرنے والے میڈیکل اسٹوڈنٹس کی حق میں آواز اٹھائیں اور جاری بربریت کیخلاف مشترکہ طور پر حامی بھرتے ہوئے اپنا مثبت کردار ادا کریں۔ ہم تب اس قومی تحریک کے ساتھ انصاف کررہے ہوں گے جب موقع پرستانہ سیاست سے دست بردار ہوتے ہوئے اور دانشورانہ غفلت سے باز آجائیں۔ ورنہ دیگر صورت ہر ایک اپنی مسجد والا سوچ ہی اصل معنوں میں رد انقلابی ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں