ایک کھلا خط بنام سوشل میڈیا ۔ نوید بلوچ

380

ایک کھلا خط بنام سوشل میڈیا
اہلیان کودہ کوڑاسک بلوچستان کی فریاد

تحریر: نوید بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

ہم اہلیان کودہ کوڑاسک اپنی فریاد کو ایک کھلے خط کی توسط سے بلوچستان سمیت پورے اقوام عالم تک پہنچانے کیلئے، سوشل میڈیا کی تمام ایکٹوسٹ اور صحافت جیسے مقدس پیشے سے منسلک اور صاف شفاف ادارے سے وابسطہ لوگوں کو گوش گزار کرکے ان سے استدعا کرتے ہیں۔

مقبوضہ بلوچستان کے دیگر علاقوں کی طرح گزشتہ کئی سالوں سے ڈسٹرکٹ خضدار کے پسماندہ یونین کونسل کودہ کوڑاسک کی باسی اس وقت جس ظلم وجبر کی شکار ہیں، شاید ان جیسی المناک ظلم و زیادتیاں شورش زدہ بلوچستان کے دیگر علاقوں کے لوگوں کو بھی سامنا کرنی پڑ رہی ہیں، اور لوگ ضرور متاثر ہیں لیکن کودہ کوڑاسک کے باسیوں کی داستان بیان کرنے سے کسی بھی ذی شعور انسان کے جسم و جان کے تمام اعضاء بیک وقت کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں،

اہلیان کودہ کوڑاسک کے کہنے کے مطابق “ہم ریاست پاکستان اور پاکستان کے دیگر اداروں سے کسی قسم کی ترقی کے خواہاں نہیں ہیں ہمیں ریاستی اہلکار صرف اپنے گھروں میں ہی رہنے دیں اور پرسکون زندگی گزارنے اور محنت و مزدورں کرنے کا حق دے حالانکہ یہ ریاست کی زمہ واری بنتی ہے کہ ہر شہری کو روزگار مہیا کرے یا روزگار کرنے کے زرائع کا بندوبست کرے لیکن دیگر ریاستوں میں بسنے والے قوموں کے مسائل اور ہیں اور پاکستان میں رہنے والے قوموں کے مسائل کچھ اور ہیں، پاکستان میں لوگ اپنی شناخت اور روزی کے لیے تڑپ رہے ہیں اور یہاں روزگار کے زرائع طلب کرنا بھی ریاست کے ہاں سب سے بڑا جرم تصور ھو گا۔”

اسی طرح مقبوضہ بلوچستان میں محنت کش محنت مزدوری کے لیے تڑپ رہے ہیں، انھیں اپنی سرزمین اور پدری ملکتیوں پر محنت و مزدوری کی اجازت نہیں ہے اور لوگوں کے بقول ریاست اور ریاستی ادارئے ہم سے وہ سلوک کررہے ہیں کہ ہم یہ سھمجنے سے قاصر ہیں کہ ہم اپنے آپ کو انسان تصور کریں یا جیل خانہ جات کی زندہ قیدی مانیں کیونکہ ہم جس سرزمین پر رہتے ہیں یہاں ہر دن انسانی چیخ و پکار کے علاوہ دیگر کسی قسم کی آواز سنائی نہیں دیتی ہے۔

ہر گھرمیں ماتم پرسی اور زندگی سے بیزاری کی لرزہ خیز داستانیں ملتی ہیں جسے ہم بیان کرنے سے کتراتے ہیں، ایسا نہ ہو ان وحشیانہ اعمال اور وحشیوں کی وحشت بیان کرنے سے ہمارے زندگی کا خاتمہ نہ ھو۔

کودہ کوڑاسک کی کل آبادی اٹھارہ ہزار نفوس پر مشتمل ایک یونین کونسل ھے، جو دور جدید کی تمام سہولتوں سے یکسر محروم ہیں، اٹھارہ ہزار پر مشتمل علاقے میں صرف ایک مڈل اسکول قائم ہے جس میں چار سو سے زائد بچے اور بچیاں زیر تعلیم ہیں لیکن جہاں اسکول میں پاکستان آرمی کے کیمپ قائم ہیں اور چند بوسیدہ کمروں پر مشتمل اسکول پر پاکستان آرمی کے قبضے سے لوگ اپنے مستقبل کے معماروں کی تعلیم و تربیت کے لیے انتہائی پریشان ہیں۔ جہاں سیکورٹی اور امن وامان کی بحالی کے بہانے پر فورسز اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ریاستی کرایہ کے قاتل اور انسانی خون کی پیاسی ریاستی ڈیتھ اسکواڈ کے کارندوں کی ریاستی پلہ مرزی سے لوگ تنگ آچکے ہیں۔

دور دراز اور دیہاتی علاقوں میں لیٹرین اور سوریج لائن کا سسٹم نہیں، درحاجت کے لیے جنگلوں میں جاتے ہیں لیکن گزشتہ کئی سالوں سے مقبوضہ بلوچستان کے دور دراز علاقوں اور دیہاتی گاوں اور بستیوں کی عقب اور نشیبوں میں فورسز کی چوکی قائم ہیں اور سیکورٹی فورسز چوبیس گھنٹے پہرا دے رہے ہیں اور راتوں میں تیز لائٹ اور ٹارچ کے استعمال سے لوگ درحاجت کے لیے محتاج ہیں کہ کہاں جائیں جہاں پردہ نشینی میں ہمارے ماوں بہنوں اور بیٹیوں کو بہت مشکلات کا سامنا ہے۔

دوسری جانب ریاستی سر پرستی میں منشیات فروشی عروج پر ہے۔ لوگ بلا روک ٹوک منشیات کی خرید وفروخت میں مشغول ہیں اور ہمارے نوجوانوں کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت منشیات کی جانب راغب کررہے ہیں۔

ہم اہلیان کودہ کوڑاسک تمام قوم دوست انسان دوست اور صحافی برادری سوشل میڈیا ایکٹوسٹوں اور طلبہ تنظیموں ودیگر بقائے انسانیت کی درد مندوں سے پرزور اپیل کرتے ہیں کہ ہماری آواز بنیں اور ہماری آواز مقتدرہ قوتوں تک پہنچانے میں ہماری مدد کریں اور انصاف کی فراہمی تک ہر فورم پر ریاستی ظلم و جبر کی داستانیں بیان کرنے کی عہد کریں۔ ہم اہلیان کودہ کوڑاسک زندہ قیدی کی حثیت سے کھلے آسمان تلے سرزمین پر کسمپرسی کی زند گی گزارنے پر مجبور ہیں قومی امید ہیکہ ہماری فریاد کو ایک موثر انداز میں اقوام عالم تک پہنچانے کے لیے ہماری ہم آواز بنینگے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں