ایک مرتبہ پھر سردار اختر جان مینگل پر تنقید کیوں ۔ ڈاکٹر عزیز بلوچ

885

ایک مرتبہ پھر سردار اختر جان مینگل پر تنقید کیوں

تحریر: ڈاکٹر عزیز بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

نواب مری سے ایک انٹرویو میں پوچھا جاتا ہے کہ آپ لوگ کہتے ہو کہ بلوچستان میں انسرجنسی ہے یہاں تو کچھ بھی نظر نہیں آرہا ؟ تو نواب مری نے کہا کہ یہ چیز دیکھنا ہے تو یہاں قدم قدم پر چیک پوسٹوں، چھاونیوں اور خار دار تاروں کو دیکھو کہ آپ کو یہ چیزیں نہ کہ پنجاب میں نہ کہ سندھ میں نہ اسلام اباد میں ملینگے یہاں عوام نا خوش ہے کہ عسکری قوت آزمائی کی ضرورت پڑی ہے۔

بالکل اسی طرح اگرسرداروں اور نوابوں کی بھیڑ میں آپ کو بلوچ وطن سے جڑت اور علاقائی سیاسی ذہن سازی و شعوری جنگ کے سپہ سالاروں کو ڈھونڈنا ہے تو دشمن کی بان کو سنو وہ کہتا ہیکہ تین سردار۔ باقی ستر سردار میرے گود میں صرف تین سردار بلوچستان میں اس کے بقول بدامنی جبکہ عوام کے بقول سچائی کی آواز کے موذن ہیں۔

میں مانتا ہوں گوادر کے عوام نے ایک تاریخی ریلی نکال کر بلوچ سیاسی نفسیات کی قیادت کو عوامی بیداری سے منسلک کیا ہے مولانا ہدایت الرحمان بلوچ ہو یا کہ عام ماسی زینی سب ہمارے آنکھوں کے تارے اور بلوچ جہد کے سپاہی ہیں ان کے سیاسی و فکری جنگ سے انکاری کسی گناہ کے مترادف ہے لیکن کچھ سیاسی نادان اس رخ کو سردار اختر جان مینگل اور بی این پی پر تنقید کے پل باندھنے کی ناکام کوشش کررہے ہیں لیکن وہ جتنی بھی کوشش کرلے وہ بلوچ سیاست کے مختلف کرداروں کے درمیان دیوار قائم نہیں کر سکتے۔

یہ ایک قافلہ ہے ایک سفر ہے اس میں ہر کوئی اپنی بساط کے مطابق جہد سے جڑت کو عملی نمونہ پیش کررہا ہے کسی قلم کے اشعار سے لیکر کسی قلم کے تحاریر سے لیکر سوشل میڈیا ٹرالنگ سے لیکر دھرنے میں بیٹھنے سے لیکر سیاسی سٹیج پر آواز بننے سے لیکر یا پھر طلباء کی آواز بننے تک ہر کوئی اپنے حصے کی ایک کوشش سے اس قافلے کو ایندھن بخشتے آرہے ہیں نا کہ سفر میں ٹہر کر ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچ کر اور کیچڑ اچھال کر،اس سے ہم منزل سے دوری کا سبب بن سکتے ہیں۔

یہاں سامراج کی شروع سے کوشش ہے کہ “دنگل” فلم کے ڈائیلاگ کی طرح پہلے دشمن کو جزباتی کرو پھر اسے پچھاڑ دو کیوں کہ جذبات میں وہ دماغ سے فیصلہ لینا چھوڑ دیتا ہے۔

اس ٹرم کو ا گر قوموں کی نفسیات سے جوڑا جائے تو ذیادہ ہی ٹھیک ہوگا کہ سامراجی عزائم یہی چاہتے ہیں کہ بلوچ جذباتیت کے بہاو میں اپنے سفر کو اپنے ہم سفر پر کھینچا تانی میں صرف کردے جس کی مثال ہم 2008 تک کی دہائی میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ جذباتی عمل سے بی این پی کے سٹیج تک کو یرغمال کیا گیا قائدین کو غلط کہا گیا کہ آپ بھی جذبات میں آکر سیاسی دھارے کو جذباتی بنا ڈالیں لیکن نتیجہ ہم سب کے سامنے ہے کہ اس عمل سے سامراج کو بلوچ ذہنوں کو چُن چُن کر مارنے کی عمل کیلئے ایندھن ملا وہ جو سردار عطاءالللہ مینگل کے سیاسی افکار پر برے قصیدے کٙستے رہے انہی کی طرف سے شاندار خراج عقیدت نے ہمیں یہ باور دلایا کہ ہم سب کسی نہ کسی طرح ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں آپ بالکل جو سیاسی طریقہ اختیار کریں ہم نے ہمیشہ آپ کو آنکھوں کا تارا کہا ہے اسی طرح ہم بھی یہ حق رکھتے ہیں کہ ہم بھی عالمی قوانین و طریقہ کار کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے سیاسی گول پر چلتے رہے۔

حتیٰ کہ ماضی میں بلوچ دانشور جن کا میں نام نہیں لکھنا چاہتا کہتے رہے کہ حق خود ارادیت صوبائی خودمختاری ہے لیکن ان کو یہ احساس تک نہ ہوا کہ بی ایس او کی آئین میں 1967 سے جو لفظ شامل کیا گیا وہ حق ئے خود ارادیت ہے اور اگر کوئی اقوام متحدہ کے چارٹر کا بغور مطالعہ کرے تو اس میں اس حق خود ارادیت کے علاوہ اقوام کیلئے کوئی اور لفظ نہیں جس کا انحصار کاتالونیہ سے سکاٹ لینڈ تلک جنوبی سوڈان سے لیکر کشمیر تلک یہی انٹرنیشنل ٹرمنولوجی کی مانگ ہے۔

میرا مقصد قوم کے کسی بھی تنظیم و رہبر کے زخموں پر نمک چھڑکنا نہیں لیکن خدارا اپنی انرجی کو محسنوں پر صٙرف کرنے کے بجائے سفر کو آگے بڑھاو ہم انسانی نسل کشی جیسے محرکات کا سامنا کررہے ہیں اس لمحات و سماج میں اپنے گول سے نظر کی چوری ہمیں مذید بد دل نہ کردے کیا ہم تاریخ سے سبق نہیں سیکھتے گزشتہ ایام کی غلطیوں کو چشمہ لگا کر نہیں دیکھتے۔

جو اقوام تاریخ سے سبق نہیں سیکھتے وہ تاریکیوں میں جکڑے جاتے ہیں۔

اسی طرح نیلسن منڈیلا ،سر سید اور بہت سے لیڈران زندگیوں میں غداری کے القابات سے گزرے منزل پاکر تاریخ انہیں ہیرو قرار دینا نہیں چھوڑا ہم کیوں بہت سے کوششوں کو تاریخ پر نہیں چھوڑتے؟

جس اغواء ہونے سے آپ اذیت کا شکار ہو اس سردار نے بھی بڑے بھائی کو شروعات سے گم کردیا جیلوں میں والد سے لیکر خود گئے اب بھی اس کا لہجہ اور سوچ وہی ہے اس کی باتیں اس کا کردار آپ کی ساحل و وسائل و قومی حق ئے خود ارادیت پر محیط ہے آپ نے اگر گوادر میں لوگوں کو جمع کیا ہے تو اس نے بھی اونچے چوٹی پر کھڑے ہوکر لاپتہ افراد پر سیمینار کیا ہے اور آپ کے دھرنےمیں بھی اس کے خیالات و ذہن ساز افراد شامل ہیں بس یہی شکوہ وہ کیوں نہیں آرہا قیادت نہیں کررہا کیا اس نے آپ سے گلہ کیا کہ گوادر لانگ مارچ سڑکوں سے جیل کی زینت بنا جلسے جلوس ،ریلیاں، اسمبلیوں کو ٹھوکر مار کر ان اسمبلیوں میں آپ کے منطق و دلیل کی بات کرکر کے اس نے تو بھی آپ سے گلہ نہیں کیا کہ کیوں تم اس کے ساتھ حاضر نہیں تھے ؟

بس وہ سفر جاری ہے آپ بھی سفر کو جاری کریں یہ سنگت کے بقول( ایک بلا پند ) لمبا پیدل سفر ہے انہیں ان کے سیاسی طریقوں پر عمل کرنے دیں خود بھی آپ اپنے سفر پر چلتے رہیں کہیں پہنچ کر تاریخ کے دسترخوان پر ہم ایک دوسرے کے گریبان پکڑنے بھی تیار ہونگے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں