امریکی حکومت نے اویغوروں کے ساتھ چین کے سلوک کی مذمت کرتے ہوئے درجنوں چینی کمپنیوں پر تجارتی پابندیاں عائد کی ہیں۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق نئی پابندیوں کی وجہ سے دنیا کی دو بڑی معیشتوں کے درمیان تناؤ مزید بڑھ رہا ہے۔ ان چینی کمپنیوں پر اویغور باشندوں کے حقوق کی خلاف ورزیوں میں چینی حکومت کو مدد فراہم کرنے کا الزام ہے۔
امریکہ کی جانب سے ڈرونز بنانے والی کمپنی ڈی جے آئی سمیت سات دیگر ٹیکنالوجی کی کمپنیوں پر الزام لگایا گیا ہے کہ یہ اویغوروں کی ’بائیو میٹرک نگرانی اور ٹریکنگ‘ کے سلسلے میں مدد فراہم کرتی ہیں۔
امریکی محکمہ خزانہ نے ان کمپنیوں کو اس فہرست میں شامل کیا ہے جن پر چینی فوج کے ساتھ روابط کا شبہ ہے۔ محکمہ خزانہ نے امریکیوں کو ان کمپنیوں کے ساتھ تجارت سے روکا ہے۔
کامرس ڈیپارٹمنٹ نے چین کی اکیڈمی آف ملٹری میڈیکل سائنسز اور اس کے 11 تحقیقی اداروں کو تجارتی بلیک لسٹ میں شامل کیا ہے جس سے ان کی امریکی برآمدات تک رسائی محدود ہوگئی ہے۔
کامرس ڈیپارٹمنٹ نے ایچ ایم این، سابق ہواوے میرین، جیانگسو ہینگٹن میرین کیبل سسٹم، جیانگسو ہینگٹن آپٹک الیکٹرک، شنگھائی اوشی کنٹرول ٹیکنالوجی کو لمیٹڈ اور ژونگٹین ٹیکنالوجی سبمیرین کیبل کو پیپلز لبریشن آرمی کو جدید بنانے کے لیے امریکہ سے ٹیکنالوجی حاصل کرنے کی کوشش کے الزامات کی وجہ سے فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔
واشنگٹن میں چین کے سفارتخانے نے ان کارروائیوں کو ’غیر ضروری دباؤ‘ قرار دیا اور کہا کہ یہ آزادانہ تجارتی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔
چین کی سفارت خانے نے مزید کہا کہ بیجنگ چینی کمپنیوں اور تحقیقی اداروں کے مفادات کو برقرار رکھنے کے لیے ’تمام ضروری اقدامات‘ اٹھائے گا۔
اقوام متحدہ کے ماہرین اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق حالیہ برسوں میں چین کے صوبے سنکیانگ میں دس لاکھ سے زیادہ اویغور اور دیگر مسلمان اقلتیوں کو حراست میں لیا گیا ہے۔
چین نے سنکیانگ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تردید کرتا ہے۔