10 دسمبر2021 کی شام کو تربت بلوچستان میں HRCP ریجنل آفس تربت مکران کے زیر اہتمام ایک مباحثے کا انعقاد کیا گیا جس میں خواتین و حضرات کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔
مباحثے سے خطاب کرتے ہوئے HRCP تربت مکران کے ریجنل کوآرڈینیٹر غنی پرواز نے انسانی حقوق کی تحریک پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ انسانی حقوق کے تصور کا آغاز 10 لاکھ سال پہلے انسان اور انسانی معاشرے کی پیدائش کے ساتھ ہوا تھا تاہم اس کا واضع تصور چھ ہزار پانچ سو (6500) سال پہلے طبقات کی پیدائش کے نتیجے میں ریاست کے اغاز کے ساتھ ہوا کیونکہ وہ غلام دارانہ ریاست تھی جس میں آقا طبقات غلام طبقات پر طرح طرح کے مظالم ڈھاتے تھے۔
کچھ عرصے تک تو غلام مظالم برداشت کرتے رہے مگر بعد میں جب ان میں شعور پیدا ہوا تو انہوں نے اپنی آزادی اور حقوق کی جدوجہد شروع کی۔ آزادی اور حقوق کی اس طویل جدوجہد کے دوران کافی قربانیاں دی گئیں جن میں 70 قبل مسیح کے روم میں ناموار غلام رہنما اسپارٹیکس کی سربراہی میں 6 ہزار غلاموں کی جانی قربانیاں اٹلی کے برونو کی جانی قربانی، ایطنز کے سقراط کی جانی قربانی، عراق کے منصور حلاج کی جانی قربانی، ایران کی قرت العین طاہر کی جانی قربانی، فرانس کی جون اف آرک کی جانی قربانی اور بیشمار دیگر جانی قربانیاں شامل ہیں۔ ان جانی قربانیوں کی بدولت18 ویں صدی کے نصف آخر میں انقلاب فرانس ایک تین لفظی نعرۂ مستانہ کے ساتھ سامنے آیا اور وہ نعرہ تھا:
Freedom, Equality and Friendship
یعنی آزادی، مساوات اور دوستی.
اس وقت اس نعرہ کی اہمیت ایک خوبصورت خواب سے زیادہ نہیں تھی، لیکن 1946 میں جب اقوام متحدہ نے انسانی حقوق سے متعلق سفارشات مرتب کرنے کے لئے ایک 18 رکنی کمیشن تشکیل دی تو اس سے خوبصورت خواب کی تعبیر نظر آنے لگی۔
1947 میں ان سفارشات کو مرتب کر کے اقوام متحدہ کے سامنے پیش کیا گیا جبکہ10 دسمبر1948 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے انھی سفارشات کی بنیاد پر 30 دفعات پر مشتمل انسانی حقوق کا عالمی منشور منظور کر لیا، اور پر یہ فیصلہ بھی کر لیا کہ یہ اس منشور کو اقوام متحدہ کے تمام ممبر ممالک اپنے اپنے دساتیر اور تعلیمی نصابات میں شامل کریں اور بعد میں سب نے کم و بیش ایسا کر بھی لیا۔ مزکورہ انسانی حقوق کے عالمی منشور میں تمام شہریوں اور طبقات کے تمام مشترکہ حقوق شامل ہیں۔
اسی منشور کی بنیاد پر بعد میں نچلے طبقات کے خصوصی حقوق سے متعلق معاہدات اور دستاویزات بھی سامنے آیے جن میں بچوں، خواتین ،قیدیوں، مذہبی اقلیتوں ،محنت کشوں، اور مہاجروں کے خصوصی حقوق کے معاہدات اور دستاویزات شامل ہیں جن کے زریعے نچلے طبقات کے خصوصی حقوق بھی سامنے لائے گئے۔
ان سب کی بدولت اگر چہ پاکستان کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں بنیادی انسانی حقوق کو کافی فروغ ملا اور بہت سارے شہریوں کو پہلے کے مقابلے میں زیادہ حقوق نصیب ہوئے لیکن اس معاملے میں ترقی یافتہ ممالک کے شہریوں کو اپنے بیشتر حقوق مل گئے جب کہ پاکستان جیسے ملکوں میں نسبتاً بہت کم شہریوں کو اپنے جائز حقوق ملے جس کی بنا پر آج پاکستان میں اور خصوصاً بلوچستان اور مکران میں انسانی حقوق کی صورتحال کچھ اسطرح ہے۔
1۔تاریخی مہنگائی کی وجہ سے اکثر شہری بجلی بلوں کے سلسے میں واپڈا کے لاکھوں کے مقروض ہیں۔
2۔غربت کا یہ عالم ہے کہ اکثر گلی کوچوں میں بھکاریوں کے قافلے نظر آتے ہیں جو بھیک کے نعرے لگاتے پرتے ہیں۔
3۔آبادیوں کی اکثریت بیروزگار ہے اور تعلیم یافتہ نوجوان اپنی اسناد ہاتھوں میں لئے روزگار کے لئے در در کی ٹوکریں کھاتے پھر رہے ہیں۔
4۔ 55ہزار کے لگ بھگ بلوچوں کو جبری طور پر اغوا کرکہ لاپتہ کر دیا گیا ہے جن میں نوجوان، بھوڈے، بچے اور خواتین سب شامل ہیں۔
5۔ ہزاروں بلوچوں کو جبری طور پر اغوا کرنے کے بعد قتل کر دیا گیا ہے اور انکی لاشوں کو مسخ کرکہ ویرانوں میں پھینک دیا گیا ہے۔
6۔ آزادی اظہار رائے پر اس ہد تک پابندیاں لگائی گئی ہیں کہ کسی کو اپنے جائز انفرادی یا اجتماعی حقوق کے لئے آواز بلند کرنے کی اجازت نہیں۔
7۔ بلوچستان کے مردوں کی طرح عورتیں اور بچے بھی بعض ایجنسیوں کے ہاتھوں غیر محفوظ ہیں۔
8۔بلوچستان میں بچوں کی بڑی تعداد اسکولوں سے باہر ہے۔
9۔بلوچستان میں محنت کشوں کی اکثریت بےروزگار ہے۔
10۔بلوچستان کے جیل خانوں میں قیدیوں کے لئے تربیت کی گنجائش اور سہولتوں کا فقدان ہے۔
11۔مذہبی اقلیتوں کے لئے اگر چہ مکران میں کوئی خاص مسئلہ نہیں مگر ملک کے دیگر علاقوں میں انکی حالت ناگفتہ بہہ ہے مثلاً سندھ میں ہندو محفوظ نہیں، جبکہ پنجاب میں عیسائی اور سکھ محفوظ نہیں۔
12۔ شیعہ ہزارہ اگرچہ مذہبی اقلیت نہیں، بلکہ مسلم ہیں پر بھی وہ کوئٹہ سمیت بعض علاقوں میں اکثر غیر محفوظ رہتے ہیں۔
13۔ بلوچستان کے لاکھوں مہاجر کافی عرصے سے اپنے ملکوں میں واپسی کے لئے ترس رہے ہیں۔
تقریب سے نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنماء و سنیٹر کہدہ اکرم دشتی نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ بنیادی طورپر ریاستوں کی زمہ داری ہے کہ وہ اپنے عوام کے حقوق کاتحفظ کریں۔ عوام کے روزگار اور زریعہ معاش، تعلیم، صحت اور مال وجان کو تحفظ فراہم کرنا ریاستوں کی زمہ داری ہے، مگر بدقسمتی سے بعض ریاستیں خود غاصب بن چکی ہیں، اور حقوق مانگنے کی پاداش میں لوگوں کو خاموش کرانے کیلئے طاقت اور جبر سے کام لے رہی ہیں۔ جب لوگوں کے حقوق سلب کیے جائیں تو لوگوں کو بزور طاقت خاموش نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے کہاکہ آج بلوچ قومی زبان ہو یا ثقافت مختلف طریقوں سے پامال ہیں۔ بلوچستان میں بولنے کی آزادی نہیں، لوگوں کو جبری طورپر لاپتہ کیا جاتاہے۔ اگر کسی نے کوئی جرم کیاہے تو اسے عدالتوں میں پیش کیا جائے، مگر بدقسمتی سے انہیں عدالتوں میں بھی پیش نہیں کیا جاتا۔
انہوں نے کہاکہ پاکستان پر ایک اشرافیہ کا قبضہ ہے اور قرضہ لیکر اسٹیبلشمنٹ کو مضبوط کیا جاتاہے۔ انکا کہنا تھا کہ اٹھارویں ترمیم نے ایک حدتک صوبوں کو حقوق دیئے ہیں، اب صوبوں کی زمہ داری ہوتی ہے کہ وہ وفاق سے اپنے حقوق لیں اور عوام کے حقوق دیں۔ انہوں نے کہاکہ آج ہمارے بعض ہمسائے جن پر ایک وقت ایساتھا کہ ہم طنز کیا کرتے تھے، آج انکی حالت ہم سے بہترہے اور ہماری حالت دن بدن بدتر ہوتی جارہی ہے۔
اس موقعے پر ایچ آرسی پی کے کارکن محمدکریم گچکی، بشیر کسانوی، بشیر دانش، شگراللہ یوسف، الطاف بلوچ، یلان زامرانی، شریف شمبئے زئی، ڈاکٹرسمی پرواز، شہناز شبیر، وسیم رفیق اور بعض دیگر نے بھی اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ انسانی حقوق کے اداروں کے ساتھ ساتھ ہماری سیاسی جماعتوں اور طلبہ تنظیموں کی بھی زمہ داری بنتی ہے کہ وہ معاشرے میں انسانی حقوق کے حوالے سے آگاہی پھیلائیں اور اس دن کو مزید بہتر انداز میں منائیں تاکہ انسانی حقوق کے حوالے سے لوگوں میں شعور اجاگر ہوسکے۔ انکا کہناتھاکہ دین اسلام نے بھی انسانوں کے حقوق اجاگر کیےہیں مگر بدقسمتی سے آج دین اسلام کو مفادات کی خاطر ڈھال بنایا گیا ہے اور بطور ہتھیار مذھب کو استعمال کیا جارہاہے جس سے اسلام کی اصل روح لوگوں سے اوجھل ہے اور اسلام کی اصل تعلیمات لوگوں تک نہیں پہنچ رہی ہیں۔ بعض ریاستیں اور بعض گروہ اسلام کو مفادات کیلئے غلط استعمال کرکے انسانی حقوق کو پامال بھی کررہےہیں۔
پروگرام میں نیشنل پارٹی کیچ کے سابقہ صدر محمدجان دشتی، جمال پیرمحمد، محمد یوسف، علی چراگ اور خواتین کی کثیر تعداد نے شرکت کی جبکہ آخر میں 7 قرار دادیں بھی منظور کر لی گئیں جو یہ ہیں:
1۔ “بلوچستان کو حق دو تحریک، گوادر” کے تمام مطالبات منظور کئیے جائیں
بلوچستان کو حق دو تحریک گوادر 15 نومبر 2021 سے مسلسل جاری ہے جس میں ہزاروں خواتین و حضرات کے ساتھ ریلیاں بھی نکالی جا رہی ہیں اور جلسے بھی منعقد ہو رہے ہیں جس کے کل 19 مطالبات ہیں جن میں غیر قانونی ٹرالروں کی روک تھام، ایرانی سرحد کی بندش کا خاتمہ اور لاپتہ افراد کی بازیابی اور رہائی کے بنیادی مطالبات بھی شامل ہیں۔
ایچ آر سی پی ریجنل آفس تربت مکران، انسانی حقوق کے عالمی دن کے سلسلے ميں منعقدہ اجلاس میں “بلوچستان کو حق دو تحریک” کی مکمل حمایت کرتا ہے اور اس کے تینوں بنیادی مطالبات سمیت تمام مطالبات کی منظوری کا پرزور مطالبہ کرتا ہے، تاہم یہ منظوری زبانی جمع خرچ کی حد تک نہ ہو بلکہ عملی طور پر ہونی چاہیے۔
2۔ تمام لاپتہ افراد کو بازیاب اور رہا کیا جائے
بلوچستان میں2001 سے لوگوں کو جبری طور پر اغوا کرکہ لاپتہ کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ موجودہ اجلاس کی نظر میں یہ ایک غیر قانونی، غیر آئینی، غیراخلاقی، غیر انسانی اور وحشیانہ عمل ہے۔ لہٰذا اس عمل کی اجلاس کی طرف سے شدید مذمت کی گئ اور پرزور مطالبہ کیا گیا کہ تمام لاپتہ افراد بازیاب اور رہا کئیے جائیں اور ساتھ ہی ساتھ لوگوں کو جبری طور پر اغوا کرکے لاپتہ کرنے کا سلسلہ ہمیشہ کے لئے بند کیا جائے۔
3۔ مہنگائی کو کنٹرول کیا جائے
بلوچستان سمیت پاکستان بھر میں آج کل بجلی، اشیاء خوردونوش اور ادویات سمیت تمام چیزیں حد سے زیادہ مہنگی ہو چکی ہیں اور یہ مہنگائی پاکستان کی تاریخ کی بدترین مہنگائی ہے جو عام لوگوں کی برداشت سے باہر ہے لہٰذا اجلاس کی طرف سے اسے کنٹرول کرنے کا پرزور مطالبہ کیا گیا اور اس کی سطح کم سے کم رکھنے پر زور دیا گیا۔
4۔تمام مستحق لوگوں کو روزگار فراہم کیا جائے
روزگار ملک کے تمام شہریوں کا بنیادی انسانی حق ہوتا ہے مگر مکران سمیت بلوچستان بھر میں لاکھوں مستحق لوگ بےروزگار ہیں اور مہنگائی کے اس دور میں انکی حالت کافی ناگفتہ بہہ ہے لہٰذا موجودہ اجلاس مکران سمیت بلوچستان کے تمام مستحق لوگوں کو مناسب روزگار فراہم کرنے کا پرزور مطالبہ کرتا ہے۔
5۔ہم یوسف مستی خان کی گرفتاری کی پرزور مذمت کرتے ہیں
اگرچہ آزادی اظہار رائے ہر شہری کا بنیادی انسانی حق ہے لیکن اس حق کو پامال کرتے ہوئے بلوچستان کو حق دو تحریک گوادر کے دھرنے کے دوران متحدہ بلوچ محاذ کے سربراہ یوسف مستی خان کو تقریر پر گرفتار کر کے پولیس تھانے میں بند کر دیا گیا لہٰذا یہ اجلاس اس غیر جمہوری عمل کی شدید مذمت کرتا ہے۔ ہمیں امید ہے کہ اب تک انہیں رہا کیا جا چکا ہے لیکن اگر اب تک رہا نہیں کیا گیا ہے تو انکی رہائی اور ان کے خلاف قائم تمام مقدمات کے خاتمے کا بھی پرزور مطالبہ کیا جاتا ہے۔
6۔ کوئٹہ کے خواتین ویڈیو اسکینڈل کی مذمت
اجلاس نے کوئٹہ کے خواتین ویڈیو سکینڈل کی شدید مذمت کی اور اس کے ذمہ داران کو گرفتار کرکہ قرارِواقعی سزائیں دینے کا پرزور مطالبہ کیا۔
7۔ بلوچستان کے تمام اسکولوں میں بلوچی زبان کی بندش قابل مذمت عمل ہے
انہوں نے کہا کہ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ بلوچستان حکومت بلوچی زبان کی تعلیم پر پابندیاں ختم کرے اور درس و تدریس کا سلسلہ پھر بحال کرے اور ساتھ ہی ساتھ بلوچستان ٹیکسٹ بک بورڈ بلوچی زبان کی کتابیں چھاپے اور ہر اسکول تک پہنچانے کا عمل شروع کرے۔