احساس
تحریر: درناز رحیم بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
صبح کا دودھیا پن اب سنہرا زرد ہو چکا تھا۔ لوگ اپنے معمول کے کاموں میں مصروف تھے۔ کوئی لکڑیاں چننے نکل پڑا تھا، کوئی قریبی ہینڈ پمپ سے پانی کی ڈبیاں بھرنے جا رہا تھا تو کوئی جھاڑو برتن میں لگا ہوا تھا۔ گاوں کی یہی خصوصیت تو سب سے خوبصورت ہوتی ہے کہ یہاں لوگ قدرت سے بہت قریب ہوتے ہیں اور شہری لوگوں کی طرح ان کی صبح دوپہر کو شروع نہیں ہوتی۔
حاجرہ بھی آج خلاف معمول صبح جلدی اٹھ گئی تھی حالانکہ جب وہ شہر میں ہوتی تو یونیورسٹی کے دنوں کے علاوہ دوپہر کو اٹھتی اور یونیورسٹی کے دنوں میں بھی مر مر کے ہی اٹھتی۔ مگر آج شاید سورج مخالف سمت سے نکلا تھا۔ حاجرہ صبح سویرے اٹھ گئی تھی اور حویلی میں سائے تلے بچھی چٹائی پر سبھی گھر والوں کے ساتھ چائے کی پیالی ہاتھ میں پکڑے بیٹھی تھی۔ مگر پہلے کی ہنسی مسکراہٹ اور شرارت غائب تھی جو اسکی شخصیت کا حصہ تھیں۔ اور نا ہی دادا کو تنگ کر رہی تھی بلکہ خاموشی سے سب کو سن رہی تھی اور گاہے بگاہے ہلکا سا مسکرا بھی رہی تھی۔
سبھی اپنے اپنے چائے کی پیالیاں پکڑے باتوں میں مصروف تھے۔ شاید سبھی نے حاجرہ میں یہ غیر معمولی تبدیلی محسوس کر لی تھی مگر سب نے اپنے اپنے حساب سے کوئی وجہ گڑھ لی اور کسی نے اس سے پوچھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔
مگر سامنے بیٹھے دادا نے اس کے چہرے پر واضح سنجیدگی کی خود سے کوئی وجہ نہیں گڑھی۔ وہ اس تبدیلی کی وجہ پوچھنا چاہتے تھے مگر صحیح موقع پر۔ چائے پی کر سب ایک ایک کر کے اٹھنے لگے۔ مرد حضرات اپنے اپنے کام پر نکل پڑے۔ خواتین گھر کے کاموں میں مصروف ہو گئیں۔ حاجرہ اور دادا سائے تلے بیٹھے رہے۔
حاجرہ ہاتھوں میں فون پکڑے کچھ ٹائپ کر رہی تھی۔ شاید نوٹس میں کچھ یادیں محفوظ کر رہی تھی کیونکہ نیٹورک کا مسئلہ ہر دوسرے گاوں میں ہوتا تھا مگر یہاں تو سرے سے نیٹورک ہی نہیں تھا۔ وہ جب تک یہاں ہوتی فون سے بس لکھنے اور تصویرکھینچنے کا کام لیتی۔
ٹائپ کرتے کرتے ہاتھ رک گئے چہرا ہلکا سا اٹھایا اور دادا کو دیکھنے لگی۔ دادا غور سے اس کا چہرہ تک رہا تھا، شاید اسکے تاثرات سے کچھ سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا۔
” بابا، کچھ کہنا ہے آپکو ” وہ نرم لہجے میں احتراماً بولی
” نہیں ، کہنا تو کچھ نہیں ہے، بلکہ کچھ پوچھنا ہے ” وہ مسکرا کر شفقت سے کہنے لگا۔ حاجرہ بھی جواباً مسکرائی
” اچھا ؟ کیا پوچھنا ہے؟ ویسے بابا۔ آپ کب سے مجھ سے کچھ پوچھنے سے پہلے تمہید باندھنے لگے ہیں ؟ ” اسکے لہجے میں شرارت اور احترام دونوں تھے۔
” جب سے تم یوں سنجیدہ اور خاموش رہنے لگی ہو۔ شرارتیں چھوڑ دی ہیں۔ دادا کو تنگ کرنا چھوڑ دیا ہے۔ اور مصنوعی مسکراہٹ سے آس پاس کے لوگوں کو دھوکا دینے لگی ہو تاکہ وہ تمہارے اندر کی کیفیت سمجھ نا سکیں” دادا نے ایک ایک کر کے ان ڈائریکٹ سارے سوال پوچھ ڈالے۔ حاجرہ کی مسکراہٹ پھیکی پڑ گئی مگر خاموش رہی۔
”حاجرہ بی بی، تمہیں کیا لگتا ہے میں نے دھوپ میں بال سفید کئیے ہیں جو اپنے اولاد کو سمجھ نا سکوں۔ اور وہ بھی سب سے پیاری اولاد کو” وہ ہنوز نرم مسکراہٹ چہرے پر سجائے حاجرہ کو دیکھ رہے تھے جو برف بنی بیٹھی تھی۔ آنکھیں جھکائے اب بھی خاموش تھی۔
” تو اب بولنے کا ارادہ ہے کہ کیا مسئلہ ہے ؟ ” انہوں نے پیار سے اسکے سر پر ہاتھ رکھا۔ اور اس محبت بھرے لمس کو اپنے سر پر محسوس کر کے لگا جیسے وہ مزید برف نہیں بن سکتی۔ یہ بگھل جانے کا لمحہ تھا۔
” مجھے لگتا ہے بابا میں ناکام انسان ہوں، میں کبھی کچھ نہیں کر سکتی ، اور میرے ساتھ سب غلط ہو جاتا ہے۔ مجھے احساس ہو رہا ہے کہ میری زندگی کا سب سے بڑا فیصلہ غلط تھا ” یہ جملے بولتے وقت اسے لگا وہ رو دیگی مگر سارے آنسو اندر اتار کر وہ خشک مگر بے بس نظروں سے دادا کو دیکھنے لگی۔ مگر دادا کچھ نا بولے۔ جیسے مزید کچھ سننا چاہتے ہو۔ اور حاجرہ یہ سمجھ گئی۔
”میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ میں کبھی خود کو یوں الزام دونگی۔ میں ہمیشہ اپنی زندگی سے بہت مطمئن تھی۔ سب کچھ ٹھیک تھا۔ مگر اب مجھے لگتا ہے کہ میں اپنی زندگی میں بہت پیچھے رہ گئی ہوں۔ وہ سب نہیں کیا جو کرنا چاہیئے تھا۔ وہ سب نہیں سمجھا جو وقت رہتے سمجھ جانا چاہیئے تھا۔ میں کیوں پیچھے رہ گئی بابا ” آنسوؤں کا پھندہ گلے میں اٹکنے لگا، آنکھیں گلابی ہوئیں مگر وہ نہیں رونا چاہتی تھی سو ضبط کر بیٹھی۔ نظریں اب بھی جھکیں تھیں۔
”زندگی میں بہت سے انکشاف ہم پر بہت دیر سے ہوتی ہیں۔ مگر کچھ بھی کہنے سے پہلے میں جاننا چاہونگا کہ تم کیوں ںسمجھتی ہو کہ تم ناکام ہو یا تم پیچھے رہ گئی ہو ؟ ” انکے لہجے میں شفقت تھی مگر تاثرات سنجیدہ تھے۔
” کیونکہ مجھے اپنی غلامی کا احساس بہت دیر سے ہوا ہے۔ میں نے اپنی زندگی کا ایک عرصہ اندھیرے میں گزار دیا۔ غلامی کے اندھیرے میں۔ اور اس اندھیرے نے مجھے اپنے قوم سے غافل رکھا۔ میرے آنکھوں پہ بندھی غلامی کی پٹی نے مجھے حق اور سچ کو دیکھنے سے روکا ۔ میں نے اپنی زندگی کا ایک عرصہ خود کو وفادار شہری سمجھنے میں گزار دیا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ میں صرف وفادار غلام تھی ”اسکی آنکھوں میں شدت ضبط سے سرخ لکیریں ابھرنے لگیں۔ وہ ایک ہی وقت میں بہت سے کیفیات سے گزر رہی تھی۔ اب کے آنکھیں جھکی نہیں تھیں بلکہ دادا کی آنکھوں میں جمی ہوئیں تھیں۔۔۔
” اور اس سب کا ذمہ دار تم خود کو سمجھ رہی ہو؟ ” دادا کے تاثرات اب بھی سنجیدہ تھے
” تو اور کون ہے اس سب کا ذمہ دار ؟ یہ سب کیا میری غلطی نہیں ہے کہ میں نے اب تک خود کو ظلم کرنے والوں کے ساتھ جوڑے رکھا ؟ مانا کہ میں نے براہ راست کسی پر ظلم نہیں کیا مگر ظلم کرنے والوں کی طرف داری تو کرتی رہی اور یہ بھی ظلم ہی ہے بابا۔ میں نے ایک عرصہ خود کو ہی دھوکا دیا ہے۔ بچپن میں جب سکول میں فوجی اہلکار آ کر چھاپے مارتے کتابیں چھانتے اور ہماری تاریخ یا سیاست سے متعلق کتابیں دریافت ہونے پر اساتذہ کو دھمکیاں دے کر چلے جاتے تو میں سوچتی یہ ہمارے بھلے کے لئے ہو رہا ہے۔ اور ابو بھی مجھے یہی سمجھاتے کہ یہ سب ہمارے بھلے کے لئے ہو رہا ہے۔ جب گاوں سے لوگ اٹھا کر لے جاتے تو میں کہتی ضرور دہشت گردی میں ملوث تھے جو انہیں اٹھا کر لے گئے۔ مگر میں غلط تھی۔ یہ ظلم ہمارے قوم کے ساتھ اسلئے ہو رہا ہے کیونکہ وہ خود کو آقا اور ہمیں غلام سمجھتے ہیں ” اس کے لہجے میں لرزش تھی، غصہ تھا، بے بسی تھی ،کیا کچھ نہیں تھا۔
” میں نہیں سمجھتا کہ تم اس سب میں قصور وار ہو ” انہوں نے گہری سانس لیتے ہوئے نظریں حاجرہ کی طرف سے پھیر کر سامنے زیتون کے درخت پر ٹکا کر کہا۔ حاجرہ کے چہرے پر اب حیرت تھی۔
” مگر بابا ۔۔۔” ( اسکا جملہ مکمل ہونے سے پہلے دادا نے اپنی بات جاری رکھی) ” تم قصور وار نہیں ہو حاجرہ ” ۔
” اور میں کیسے قصور وار نہیں ہوں ؟ ” اسکا لہجہ دھیما اور آنکھوں میں حیرت تھی۔ حاجرہ یک ٹک دادا کو دیکھ رہی تھی
” تم خوش قسمت ہو کہ وقت رہتے تم یہ بات سمجھ گئی۔ مگر سمجھ جانا کافی نہیں ہوتا اقدام بھی اٹھانے ہوتے ہیں۔ جسے غلط سمجھا جائے اسکے خلاف لڑنا بھی ہوتا ہے۔ تم ناکام نہیں ہونا ہی تم پیچھے رہ گئی ہو۔ تم اب بھی اس قابل ہو کہ اس اندھیرے سے نکلنے کی کوشش کرو۔ غلامی کے اندھیرے سے نکلنے کی کوشش کرو حاجرہ” آخری جملہ دادا نے درخت سے نظرے ہٹا کر حاجرہ کی آنکھوں میں دیکھ کر کہا تھا ۔۔۔
” کیا واقعی میں پیچھے نہیں رہ گئی۔ مگر۔۔۔ اب میں ایسا کیا کروں کہ میرا احساس ندامت ختم ہو جائے، وہ ندامت جو میں نے ظالم کی طرف داری کر کے اس کے ظلم کو واجب ٹھہرا کر کمایا ہے ؟ میں تو اپنے ہی لوگوں کے خلاف ہو گئی تھی بابا انجانے میں ہی صحیح مگر میں نے ظلم کا ساتھ دیا ہے۔۔۔ میرے وہ دوست جو غلامی کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں جو ظلم کے خلاف آواز اٹھاتے رہے ہیں۔۔۔ میں نے انکو کتنی بار نیچا دکھانے کی کوشش کی ہے انکو برا کہا ہے اور اب میں ایسا کیا کروں کہ انکو میرا یقین آ جائے ؟ میں ایسا کیا کروں کہ میں بھی ان میں شامل ہو جاؤں اور انکا ساتھ دوں ؟” وہ روہانسی ہو گئی۔
” یقین کمانا پڑتا ہے اور تم کما لوگی ۔۔۔کیا تم جانتی ہو حاجرہ ہم ہر دن ایک نئے انسان میں ڈھلتے رہتے ہیں اور جب ہم پیچھے دیکھتے ہیں تو ہمیں ماضی کے تمام غلطیوں کا اندازہ ہوتا ہے اور جب ہمیں اپنی غلطیوں کا احساس ہوتا ہے تو ہمیں لگتا ہے کہ ہم اپنی غلطیوں کو کبھی نہیں سدھار سکتے اور مایوس ہو جاتے ہیں۔ مگر ایسا نہیں ہے (انکے لبوں پر نرم سی مسکراہٹ در آئی) ہمارے پاس ہمیشہ راستہ ہوتا ہے مایوسیوں سے نکلنے کا، اپنی غلطیاں سدھارنے کا۔ میں بھی تو اس وقت اپنی غلطی سدھارنے کی کوشش کر رہا ہوں ” انکی نرم مسکراہٹ میں اب زخمی پن کی جھلک تھی۔
” کون سی غلطی بابا؟” حاجرہ نے نا سمجھنے والے انداز میں پوچھا۔ وہ واقعی نہیں سمجھ پائی کہ دادا اپنی کونسی غلطی کی بات کر رہے ہیں۔
” پہلے میرے سوال کا جواب دو حاجرہ۔۔۔ ایسا کیا ہو گیا اچانک سے تمہاری زندگی میں جو تم اتنا کچھ سمجھ گئی اور تمہاری سوچ اتنی بدل گئی ؟” دادا اسے غور سے دیکھ رہے تھے۔ حاجرہ تلخ سا مسکرائی
”اچانک سے تو کچھ بھی نہیں ہوتا بابا ۔۔۔ اچانک سے صرف موت آتی ہے۔ شعور تو اچانک سے نہیں آتا، وحی کی طرح نازل نہیں ہوتا۔ میں نے ریاستی مظالم کو یہ کہہ کر نظر انداز کرنا چھوڑ دیا کہ یہ ہمارے بھلے کے لئے ہو رہا ہے۔ صحیح جانب ہونے کے لئے کبھی کبھی غیر جانبدار ہو کر سوچنا پڑتا ہے۔” وہ کسی غیر مرئی نقطے کو دیکھتے ہوئے بولی
” جب میں تمہاری عمر کا تھا، آزادی کی بات کرنے والے تب بھی موجود تھے۔ ہاں یہ جنگ اب جا کر تیز ہوئی ہے مگر اسے شروع ہوئے بہت دہائیاں گزر چکی ہیں” (دادا نے پھر سے نظریں زیتون کے درخت پر جما دیئے اور بات جاری رکھی) تب میرے ایک بہت عزیز دوست نے مجھ سے جنگ آزادی کی بات کی تھی۔ میں نے یہ کہہ کر کہ مجھے شیر کے منہ میں ہاتھ ڈالنے کا شوق نہیں ہے اور ہم چار لوگ ایک ریاست سے لڑ کر جیت نہیں سکتے، اسکا مذاق اڑایا تھا۔ اس وقت میرے پاس انتخاب کرنے کے لئے دو راستے تھے کہ میں حق اور سچ کا انتخاب کروں یا اپنی ذات اور اپنے خاندان کا انتخاب کروں۔ میں نے حق اور سچ کو قربان کیا اور اپنی ذات کو چنا (لہجے میں کرب واضح ہوا) اس نے مجھے قائل کرنے کی بہت کوشش کی مگر میں نے اپنے خاندان کا سوچا اور اسے بھی اپنے خاندان کے بارے میں سوچنے اور ان چکروں میں نا پڑنے کا مشورہ دیا۔ اس نے یہ بھی کہا کہ میں ایک دن اسکی باتیں سمجھ جاونگا مگر وہ نہیں چاہتا کہ تب تک بہت دیر ہو جائے”
بہت دیر خاموشی میں گزر گئی دادا یاد ماضی میں جکڑ چکے تھے اور حاجرہ انہیں دیکھ رہی تھی۔ کچھ وقت ایسے ہی خاموشی میں گزر گیا۔ بالآخر دادا نے یہ خاموشی توڑ دی۔
” اس نے اپنے خاندان کو ایک مقصد کے لئے لڑنا سکھایا۔ نا صرف اپنے خاندان کو بلکہ بہت سے لوگوں کی آنکھوں سے غلامی کی پٹی اتار پھینکی۔ میں بھی ان میں سے ایک ہو سکتا تھا۔”
” اور آپ ان میں سے ایک ہیں بابا” وہ معصومیت سے بولی۔ دادا مسکرائے اور اپنی بات جاری رکھی
” اپنی ذات سے نکل کر اپنے قوم کے بارے میں سوچنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ میں جب اپنے سر زمین کا دفاع کر سکتا تھا، لڑ سکتا تھا اور مجھے چلنے پھرنے کے لئے انکی ضرورت نہیں تھی ( اپنے بیساکھی کی طرف اشارہ کیا) تب میں نے اپنی ذات کا سوچا اپنے خاندان کا سوچا اپنے بچوں کا سوچا۔ آج اس بات کا احساس ہونے پر اگر میں اپنے بیٹوں کو قائل کرنے کی انہیں سمجھانے کی کوشش کروں تو میری باتیں بے اثر ہونگیں کیونکہ میں خد نہیں لڑا ، میں نے آسان راستہ چنا۔ ہم کسی کو اپنے عمل سے قائل کر سکتے ہیں اپنی باتوں سے نہیں۔ اور میرے بیٹے بھی میرے عمل سے قائل ہو گئے ہیں میری باتوں سے قائل نہیں ہونگے۔ جو تربیت میں نے انکی کی وہی تربیت انہوں نے تمہاری کی اور اسلئے غلط تم نہیں تمہاری تربیت تھی۔ آج جس طرح تم حق اور سچ کو جان چکی ہوں تمہیں احساس ہو گیا ہے انہیں بھی اس بات کا احساس خود سے ہو جانا چاہیئے تھا مگر انہیں نہیں ہوا ” وہ حاجرہ کو نرمی اور شفقت سے سمجھا رہے تھے
” اور تم نا کام نہیں ہو کیونکہ تم اب بھی صحیح راستے کا انتخاب کر سکتی ہو۔ آج تمہارے پاس انتخاب کے لئے دو راستے ہیں۔ آسان اور مشکل راستہ۔ وہ راستہ انتخاب کرو جو بہت مشکل ہے اور جو حق کا راستہ ہے اور مشکل راستوں سے ڈر کر تمہیں خوبصورت منزل کو قربان نہیں کرنا چاہیئے ”
وہ بہت غور سے دادا کی باتیں سن رہی تھی، راہنمائی حاصل کر رہی تھی، اپنے دل سے بوجھ اتار رہی تھی۔
” میں مشکل راستے کا انتخاب کبھی ترک نہیں کرونگی اگر وہ راستہ میری اور میرے قوم کی غلامی سے نجات کا راستہ ہو” وہ معصوم اور پر عزم لہجے میں لبوں پر مسکراہٹ سجائے بولی۔
” اور مجھے یقین ہے تم پر اور تمہارے انتخاب کردہ راستے پر ۔۔۔ تم کبھی پیچھے نہیں ہٹوگی میں جانتا ہوں ” وہ بھی مسکرائے تھے
” شکریہ بابا ۔۔۔۔ ” حاجرہ اب اپنے دل کو ہلکا محسوس کر رہی تھی۔
” شکریہ حاجرہ ۔۔۔ میرے خاندان سے وہ پہلا فرد بننے کے لئے جو اپنے قوم کے لئے مشکل راستے کا انتخاب کریگی ” انکی مسکراہٹ اور گہری ہوئی۔ ” اور اب چلو مجھے اندر کمرے تک لے چلو” دادا اٹھنے لگا، حاجرہ نے جلدی سے انکا ہاتھ تھاما اور اٹھنے میں انکی مدد کی۔
دو دن بعد حاجرہ چلی گئی ۔اسکی چھٹیاں ختم ہو گئیں تھیں۔ اس بار وہ نئے عزم کے ساتھ گئی تھی۔ ساری مایوسیاں، اپنی ذات سے ساری شکایتیں، حوصلے پست کرنے والی ساری باتیں ذہن سے جھٹک کر، وہ اب نئے طویل اور مشکل راستے کا انتخاب کر چکی تھی۔ اپنی ذات کو بالائے تاک رکھ کر اب اسے جو کرنا تھا، ہر قیمت پر وہ کر گزرنے کا وعدہ اس نے خود سے کر لیا تھا۔
یہ کوئی جزباتی فیصلہ نہیں تھا نا ہی مجبوری کا ۔۔۔ یہ وہ فیصلہ تھا جو اس نے احساس کے تحت کیا تھا جو شعور آنے پر اسے ہوا تھا ، غلامی کا احساس ۔۔۔۔احساس۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں