آزادی ہی شہیدوں کے خواب کی تکمیل ہے – منیر بلوچ

340

آزادی ہی شہیدوں کے خواب کی تکمیل ہے

تحریر: منیر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

جسمانی موت، موت نہیں ہوتی بلکہ موت وہ ہوتی ہے جب انسان زندگی میں کوئی کردار ادا نہ کرکے ہمیشہ کے لئے سوجائے. اور اس انسان کو یاد کرنے والا کوئی نہ ہو. لیکن جب کوئی انسان اپنے کردار و عمل سے ایک نئی دنیا کی تعمیر کی بنیاد رکھ کر دشمن کی نیندیں اڑادیں اور قوم کے شعور کو اوج ثریا عطا کریں تو وہ انسان امر ہوجاتا ہے. ایسے انسان شہید کہلاتے ہیں جن کی زندگی کا مقصد ایک نئی دنیا بسانا ہوتا ہے. شہید کبھی مرتے نہیں بلکہ وہ قوموں کو زندگی عطاکرکے اپنا قرض دار بناتے ہیں.

لمہ وطن شہید بانک کریمہ کا شمار انہی انسانوں میں ہوتا ہے. جنہوں نے اپنی زندگی قربان کرکے بلوچ قوم کو اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ کیا. بلوچ خواتین کو جدوجہد کی ایک نئی راہ دکھائی اور خود کو ایک قومی رہنما کے طور پر متعارف کروایا.

اگر بلوچ قومی تحریک کا باریک بینی سے تجزیہ کیا جائے تو یہ بات عیاں ہوتی ہےکہ بلوچ قومی تحریک میں قومی رہنما کی اصطلاحات کا استعمال شہید غلام محمد کی شہادت کے بعد معدوم ہوگیا تھا اور قومی رہنما کی جگہ پارٹی یا تنظیمی رہنما کی اصطلاح کا استعمال شروع ہوگیا تھا. یہ کیسے ہوا اور کیوں ہوا یہ بات توجہ طلب ہے اور اس کا حل قومی تحریک میں برسر پیکار رہنماؤں کو ڈھونڈنا چاہئیے، میرے خیال میں اس کی اہم وجہ اتحاد و یکجہتی کا فقدان ہے.

لیکن شہید کریمہ کی شہادت نے بہت حد تک بلوچ قوم کو یکجا کردیا ہے اور شہید کی کردار کی وجہ سے انہیں قومی رہنما کے منصب پر فائز کیا گیا ہے.

اس کا واضح ثبوت اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ بانک کی پہلی برسی پارٹی اور تنظیمی بیانات کے علاوہ عوام کی شمولیت ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بانک کریمہ نے جو روشنی بلوچ سماج میں پھیلائی تھی اس سے عام بلوچ مستفید ہوئے اور وہ بانک کی راہ پر چلنے کو تیار ہیں۔

قومی تنظیم بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی جانب سے شہید کو لمہ وطن اور ان کی شہادت کے دن بلوچ وومن ڈے منانے کا اعلان کیا گیا ہے جبکہ بلوچ نیشنل موؤمنٹ نے اس کی حمایت اور شہید کو رژن بلوچ کا خطاب عطا کیا ہے. یہ دونوں فیصلے نہایت ہی احسن اقدام ہیں اور بانک ان کی مستحق ہے.

خواتین کا کردار کسی بھی سماج کی بہتری کے لئے نہایت ہی اہمیت کا حامل ہے اور خواتین نے اپنے کردار سے اسے ثابت بھی کیا ہے. بلوچ قومی تحریک میں خواتین کی تعداد نہایت ہی قلیل ہے. لیکن یہ تعداد بانک کریمہ کی جدوجہد کے مرہون منت ہے جنہوں نے تمام مصائب کا مقابلہ کردار خود کو رول ماڈل کے طور پر متعارف کروایا اور بلوچ خواتین کو سماج کی زنجیروں سے آزاد کرانے میں کردار ادا کیا.
تنظیم کا یہ فیصلہ بلوچ خواتین کو سیاست میں متحرک کرنے میں اہم کردار ادا کریگا اور شہید بانک کے نقش قدم پر چلنے کی راہ دکھائے گا.

بلوچ قوم شہیدوں کی قرض دار ہے اور اس قرض کو چکانا تمام بلوچ مرد و خواتین کی زمہ داری ہے. اس قرض کو صرف اسی صورت اتارا جاسکتا ہے جب بلوچ ایک آزاد قوم کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پر نمودار ہونگے، اس کے لیے سیاست سے لے کر جنگ تک ہر میدان میں جنگ کی رفتار تیز کرکے ہم ایک نئی دنیا میں داخل ہوسکتے ہیں جو بانک کریمہ سمیت تمام شہیدوں کا خواب تھا.


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں