21 نومبر 1921 سدسالہ نورا مینگل شہادت
تحریر۔ ڈاکٹر عزیز بلوچ (سابقہ وائس چئیرمین بی ایس او BSO
دی بلوچستان پوسٹ
بہشت میں نورا مینگل کی سردار عطاءللہ مینگل سے ملاقات
نورا مینگل ! مرحبا مرحبا میرے فرزند خوش آمدید
سردار عطاءاللہ مینگل ! سلامتی سلامتی میرے بزرگ میری بنیاد
سردار عطاءاللہ مینگل !_ حال احوال سناو اپنا
نورا مینگل! بس ہمیں کوثر سے جام پیتے ہوئے اور شاہی محل میں ٹیک لگاتے ہوئے پتہ ہی نہیں چلا کہ زمانے کو سو سال بیت گئے ہم یہاں آسودگی کے اعلی درجے پر رہائش پزیر ہیں __
ہاں یہ سب انعامات ہمیں محض ایسے نہیں ملے بلکہ ہم بھیڑ بکریاں چرانے والوں نے جب محسوس کیا کہ آدھی دنیا پر مسلط فرنگی لشکر ہمارے زمین اور لوگوں کو اپنے قبضہ گیر ریوڑ میں شامل کرنا چاہتا ہے تو ہم نے ان آرام دہ بستروں کو خیرباد کہہ کر پہاڑوں کے سینے پر سونے لگے ہم نے بھیڑ بکریوں کو بیچ کر ہتھیار خرید لئے اور اپنے پاوں پر آبلے کے نشانات سے زمین پر لہو ٹپکا دئیے گویا ہم نے زمین کے رخسار پر ٹیکا سجالیا اور پہاڑوں کے ہتھیلیوں کو اپنے لہو سے مہندی رچا لیا۔
ہاں ان پہاڑوں کا تو میں آپ سے نہیں پوچھتا وہ اپنی جگہ پر ڈٹے ہوئے ہونگے البتہ وہ ہمارے گھر تھے دشمن کے للکار سے ہمیں چھپاتے رہے پناہ دیتے رہے ساتھیوں کی جدائیاں ہمیں ڈستے گئے لیکن عمل کا میدان سے پیچھے نہ ہٹنا ہمارے وراثت کا انمول سبق تھا کئی بار گھیراو کیا گیا لیکن ہم دشمن کے گھیرے سے نکل جاتے تھے کیوں؟
دراصل زمین پہاڑ اور مٹی سب ہمارے حمایت میں تھے وہ ہمیں کسی پہاڑی چکور کی طرح گود لیا کرتے تھے ہم نے ہمت سے فرنگی دشمن کے منصوبوں کو مٹی میں ملا دئئے کرنل ڈیوڈ ہو ہینڈرسن یا پارگیڈ ہمارے گولیوں کے سامنے زمین بوس ہوگئے ان کے واہمے میں بھی نہیں تھا یہ بھوکے پیٹ اور ننگے پاوں لوگ ہم پہ ٹوٹ پڑینگے ہم بس لڑتے رہے چھپتے رہے کیوں کہ ہم باغی تھے اس قبضہ گیر فرنگی لشکر کے ارادوں کے اور ایک باغی کیلئے ظاہر ہونا موت کے سوا کچھ نہیں۔
ہاں حبیب اللہ نوشیروانی نے خاران میں میرا رائفل ٹھیک کرنے کا کہہ کر ہمیں دھوکہ دیکر گرفتار کروایا تھا لیکن ہم مرنے سے کہاں ختم ہوتے ہیں دیکھ رہے ہو سب زندہ ہیں وہ گہرام وہ لالووہ رسول جان سب۔
آپ سناو اپنا حال ؟___
سردار عطاءاللہ خان مینگل !_ دراصل تمہارا بندوق تمہارے جانے کے بعد ہم نے واپس اٹھا لیا وہ گم نہیں تھا ہم نے اسے سونار کو دیدیا کہ اس کا شکل بدل کر اس کو قلم بنایا جائے ہم نے اس قلم کے پیوندوں کو کونے کونے پہنچایا درسگاہیں وجود دے ڈالے ذہنوں میں فکر و فلاسفی و تاریخ کے آمیزش ڈالتے رہے لیکن ساری زندگی ہمیں حکمران غدار غدار کہتے رہے اب تو عادت ہوگئ ہے غدار لفظ ہی اچھا لگنے لگا جو باربار سنتے رہے ہم نے راستہ دیا قوم کو ان کو منزل سے آشناس کرادیا تو یہ جرم بن گیا ہمیں تمہاری طرح سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا بے وطن کیا گیا تمہیں تو پتہ ہے نا کہ وطن سے دور ہونا کتنا دردناک ہے۔
اور ہاں وہ میرا بیٹا اسد جو آپ کے پاس بیٹھا مجھے اپنے سیاسی جنگ سے دستبردار کرنے کیلئے اسے غائب کیا گیا نہ جانے کتنے اذیتیں دی گئی کہ میں نے پانچ بار اس دل کو چیر دیا کہ دل چیرنے سے ذیادہ درد مجھے قوم کا غم ذیادہ محسوس ہوا میں آخری سانس تک بس اسی غم کی کیفیت میں تھا اور کیا سناوں میں وہاں کا ہر گدان سے ماتمی آوازوں کی چیخوں سے بھیڑ بکریوں کے ریوڑ بھی بدک جاتے ہیں مائیں اپنے بیٹوں کیلئے روتے رہے وہ گم تھے اور وہ لاشیں جو جھلس کر ملتی رہے سب یہاں بیٹھے ہوئے ہیں ان کے غم میں میرے زمین پہ سیاہ بادل ماتم کرتے تھے جنگ کے دستور بدل گئے اب گولیوں کی جگہ الفاظوں نے لی ہے لیکن اگر کوئی لفظ کسی کو برا لگے تو وہ نامعلوم افراد کے ہاتھوں غائب ہوجاتے ہیں مار دئیے جاتے ہیں میرے بلوچستان کا مت پوچھو وہ ماتمستان بن چکا ہے میں اور ایک زیتون کا درخت اس کے غم میں دنیا سے الگ ساتھ روتے ہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں