گوادر کی حالت، امتیاز رفیع بٹ کی نظروں میں
تحریر:محمد عمران لہڑی
دی بلوچستان پوسٹ
یہ تو مجھے معلوم ہے کہ اس حوالے سے لکھنا یا ان سینکڑوں میل دور بیٹھے صحافت فروش لکھاریوں کے الفاظ اور افکار پر لکھنا وقت کو ضائع کرنے کے علاوہ کچھ نہیں۔ بس ٹائم پاسی سمجھ کر کچھ ذہن کے بوجھ ہو ہلکا کرنے کیلئے دو الفاظ لکھ رہا ہوں۔
حسب معمول دن کے کسی پہر کو وقت نکال کر کچھ وقت اخبار کو دیتا ہوں۔ اس لیے نہیں کہ ان اخبار کی شہ سرخیوں میں حقیقی حالات سے اگاہی ملتی ہے یا کوئی قلم کی حرمت کا خیال رکھتے ہوئے پسے، کچلے ہوئے لوگوں کا ہم آواز بن کر حقائق کو دنیا کے سامنے آشکار کرے۔ بلکہ صرف کچھ لمحات کیلئے دن بھر کے کام کاج کی تھکاوٹ کو دور کرنے کیلئے اخبار کے سرخیوں کے ساتھ چہ میگوئیاں کر کے پاگلوں کے طرح اپنے آپ سے الجھتا ہوں۔ کبھی کسی غیر ضروری بیان پر تو کبھی کسی سفید جھوٹ پر۔ آخر یہ بھی معلوم ہے کہ میرا اپنے آپ سے الجھنا خود کے دماغ پر بوجھ ڈالنے کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوسکتا اور نہ کہ ان اخبار کے مالکان اپنے اخبار کے قبلے کا سمت درست کرکے عوامی اخبار بنائیں گے۔
کچھ ایسا ہی ہوا آج میرے ساتھ۔ جیسے ہی آج کا اخبار (روزنامہ جنگ 18 نومبر 2021) کا ایڈیٹوریل پیج پر نظر ڈالا تو اخبار کے وسط میں امتیاز رفیع بٹ کے آرٹیکل “مستقبل کا شہر، گوادر” پر نظر پڑا۔ پڑھنے سے پہلے مجھے بخوبی اندازہ تھا کہ بٹ صاحب نے اپنے 70 سالہ نسلی روش اور سوچ کے ساتھ بلوچستان کے حوالے سے لکھا ہے۔ یہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی میں نے اس آرٹیکل کو پڑھا۔ کیا دیکھا، کیا پڑھا۔ بلکل بٹ کو اپنے اسلاف کے سوچ اور طور طریقے پر من و عن عمل پیرا ہوکر انتہائی شاطرانہ طرز کے ساتھ گوادر کو ایک ایسے خطے کے طور پر پیش کیا ہے کہ دنیا کی لوگوں کے آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کی گئی ہے۔
بٹ صاحب کے بقول ” کورونا کے بعد بڑی معیشتوں کی بحالی کے ساتھ، گوادر دوبارہ عروج کی جانب گامزن ہے” بات تو عروج کی ٹھیک ہے مگر عروج معیشت کی نہیں بلکہ مقامی لوگوں کی زندگی کے بنیادی سہولیات یعنی پانی، صحت، تعلیم اور روزگار کو چینے کی عروج ہے۔ مقامی لوگوں کو لوٹنے کے عروج ہے۔ لوگوں پر ظلم و ستم ڈھانے کی عروج ہے۔ گوادر کی عوام کا کفن پوش احتجاج پچھلے چار دنوں سے جاری ہے لیکن بٹ کے منافقانہ عینک میں یہ حالات ہرگز نہیں آتے۔
آگے لکھتا ہے کہ ” جغرافیائی لحاظ سے یہ ایک ایسے مقام پر واقع ہے جو 2030 تک بین الاقوامی تجارت میں سرکردہ حیثیت کا حامل ہوگا۔” بس یہاں سے بٹ صاحب کی انگریز والا منصوبہ سمجھ آگیا کہ ہمیں گوادر کی زمین چاہیئے عوام کو کیا کریں گے۔ مطلب اس خطے کو اپنے تحویل میں لیکر یہاں کے مقامی آبادی کو بیدخل کیا جائے۔ یہ تو واقعی یہی منصوبہ ہے عوام سے جائیدادیں ضبط ہورہی ہیں۔ روزگار چھن رہے ہیں۔ بنیادی سہولیات جان بوجھ کر گوادر کے غریب بلوچوں کو نہیں دے رہے ہیں۔ گوادر کی زیادہ عوام کا ذریعہ معاش ماہی گیری ہے لیکن یہ حق بھی ان سے چھین رہےہیں۔ اب تو سننے میں آیا ہے کہ گوادر کے ساحل پر ٹرالرز کھڑی کردی گئی ہیں۔
یہ رہا بٹ کا پرانا رویہ۔ آگے بھی بہت کچھ زمینی حقائق اور مقامی لوگوں کی زندگی کے حالت زار سے آنکھیں چراتے ہوئے لکھا ہے۔ چین کی طاقت کے دوڑ کو سراہتے ہوئے CPEC اور OBOR کی خوب گن گائے ہیں۔ ادھر سے خان صاحب کی حکومت تو بلوچستان کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کی بھی خوب کوشش کر رہے ہیں۔ اخباری بیانات تک تو شمالی اور جنوبی بلوچستان کے نام کے سرخیاں دیکھنے کو ملتے ہیں۔باقی معلوم نہیں قوم پرست پارٹیوں کے لیڈران اس حوالے سے کیا پالیسی بنائے ہوئے ہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں