کوئٹہ پریس کلب کے سامنے نوشکی سے لاپتہ نصیب اللہ بادینی و مچھ کے رہائشی ودؤد ساتکزئی کی جبری گمشدگی کے خلاف لواحقین ی جانب سے احتجاجی مظاہرہ کیا گیا –
مظاہرے میں طلباء سیاسی و سماجی تنظیموں کے کارکنان اور متاثرہ لواحقین شریک ہوئے –
مظاہرے سے قبل پریس کانفرنس کرتے ہوئے نوشکی کے رہائشی لاپتہ نصیب اللہ بادینی کے لواحقین کا کہنا تھا روزانہ کی بنیاد پر بلوچستان کے مختلف علاقوں سے جبری طور پر لاپتہ افراد کے لواحقین اپنے دکھ درد سمیٹ کر ایک امید کیساتھ یہاں پریس کلب میں اپنا درد آپ کے سامنے بیان کرتے ہیں۔ ہم بھی ان ہزاروں خاندانوں میں سے ایک متاثرہ گھر ہے۔
صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے نصیب اللہ بادینی کے لواحقین کا کہنا تھا کہ نوشکی کے علاقے قاضی آباد کے رہائشی نوجوان طالب علم نصیب اللہ بادینی کو 25 نومبر 2014 کو پاکستانی خفیہ ایجنسیوں کے اہلکاروں نے نوشکی کے علاقے قاضی آباد سے اس کے بھائی کے سامنے ان کے دکان سے جبری طور پر حراست میں لے کر لاپتہ کردیا جس کے جبری گمشدگی کو آج 7 سال کا طویل عرصہ مکمل ہوچکا ہے۔
لواحقین کا کہنا تھا نصیب اللہ ایک ہونہار طالب علم اور فرمانبردار نوجوان تھا اس کے علاوہ ملکی سطح پر وہ ٹیکوانڈ کا ایک گولڈ میڈلسٹ ہے، لیکن سات سال طویل کربناک عرصے میں ہمیں اس کے خیریت کے حوالے سے کسی قسم کی معلومات نہیں مل سکی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم پوچھنا چاہتے ہیں کہ ایک پوزیشن ہولڈر طالب علم اور گولڈ میڈلسٹ نوجوان کیونکر غیر قانونی و غیر آئینی طور پر غائب کرکے ناکردہ گناہوں کی سزا دی جارہی ہے جبکہ ملک کی اپنی قوانین و آئین اور عدالتیں موجود ہیں تو پھر کیوں ماورائے قانون ایک نوجوان کو اس طرح غائب کیا گیا ہے جس کے جبری گمشدگی کیساتھ اس کے گھر ایک درد اور کرب کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
انہوں نے کہا ہم عدل و انصاف پر یقین رکھتے ہیں اس لیے کوئی ازخود فیصلہ یا حتمی رائے قائم کرنے کی بجائے یہ کہتے ہیں کہ اگر نصیب اللہ بادینی کے خلاف کسی قسم کا کوئی بھی الزام موجود ہے یا وہ کسی بھی جرم کا مرتکب ہوئے ہیں تو پھر ملک میں ایک آئین ہے قانون ہے اس کے مطابق نصیب اللہ بادینی کو کسی بھی عدالت میں پیش کیا جائے اس کے خلاف ایف آئی آر کاٹیں مقدمہ چلائیں اگر کوئی الزام ثابت ہو تو سزا دیں تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں لیکن اس طرح ماورائے عدالت کسی شخص کو اغواء کرکے یوں صفحہ ہستی سے غائب کرنا انسانی حقوق کی کھلم کھلا خلاف ورزی اور ملکی قانون کو پاؤں تلے روندنے کے مترادف ہے
نصیب اللہ بادینی کے لواحقین نے کہا کہ ہم اقوام متحدہ، ایمنسٹی انٹرنیشنل، ہیومن رائٹس واچ کمیشن آف پاکستان، ایشین ہیومن رائٹس کمیشن سمیت انسانی حقوق کے تمام اداروں سے اپیل کرتی ہوں کہ وہ نصیب اللہ بادینی کے اس جبری گمشدگی کا نوٹس لیکر اس کی بحفاظت بازیابی میں اپنا کردار ادا کریں-
مچھ کے رہائشی گل زادی بھی اس مظاہرے میں شریک تھی اور اپنے بھائی ودؤد کی عدم بازیابی کے خلاف احتجاج کررہی تھی –
گل زادی بلوچ نے پریس کانفرنس میں کہا کہ بلوچستان میں جبری گمشدگی کے واقعات نئی بات نہیں ہے یہاں ہر تیسرا گھر اس ماورائے قانون عمل سے متاثر ہے کسی بھی شخص کو جبری طور پر لاپتہ کرنا عالمی انسانی حقوق کے تحت ایک جرم ہے، میں بھی اس غیر قانونی عمل متاثر ایک بہن کی حیثیت آپ لوگوں کے سامنے آئی ہوں۔
انہوں نے کہا میرے بائیس سالہ بھائی ودود ساتکزئی کو 12 اگست 2021 کو فرنٹیئر کور اور خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے حراست میں لیکر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا جس کے بعد ان کے حوالے سے ہمیں قسم کی معلومات نہیں مل سکی۔
گل زادی نے کہا کہ اسکے بھائی ودود ساتکزئی کو اس کے دوست نثار ولد اسماعیل شاہ نے گھر سے بلا کر اپنے ہمراہ لے گیا عینی شایدین کے مطابق تھوڑی دور ایف سی کی دو گاڑیاں کھڑے تھے جبکہ ان کے ہمراہ سیاہ شیشے والی گاڑیاں بھی موجود تھی نثار ولد اسماعیل شاہ نے باتوں باتوں میں میرے بھائی کو ان تک پہنچایا، جب وہ نزدیک پہنچے تو سادہ کپڑوں میں مبلوس اہلکاروں نے میرے بھائی کے منہ پر کپڑا ڈالا اور گاڑی میں پھینک کر اپنے ہمراہ لے گئے۔
گل زادی نے کہا کہ آپ کو معلوم ہے کہ اس وقت پورے بلوچستان میں ایک خوف کا ماحول ہے، علاقائی عینی شاہدین گواہی دینے سے خوف شکار ہیں میرا بھائی ایک طالبعلم ہے وہ فارغ وقت میں اپنے بھائی کے ساتھ کوئلہ کان میں مزدوری کا کام کرتا ہے اور مغرب کے وقت وہ گھر آتا تھا مذکورہ شخص نے دھوکہ دہی اور غلط بیانی کے تحت ودود ساتکزئی کو جبری طور پر لاپتہ کروایا ہے۔
ودؤد ساتکزئی کے ہمشیرہ نے کہا کہ کسی بھی شخص کے لاپتہ ہونے سے نہ صرف وہ شخص متاثر ہوتا ہے بلکہ اس کے ساتھ پورا خاندان کرب و اذیت میں مبتلا ہوتا ہے بھائی ودود ساتکزئی کے جبری گمشدگی سے ہمارا پورا گھر متاثر ہوچکا ہے ہم اس کے بحفاظت بازیابی کے منتظر ہیں۔
گل زادی بلوچ کا کہنا تھا ہم مسلسل لاپتہ افراد کیلئے قائم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے کیمپ احتجاج ریکارڈ کرتے رہے ہیں جبکہ حکام بالا سے ودود ساتکزئی کے بازیابی کیخلاف اقدامات اٹھانے کی اپیل کرچکے ہیں لیکن تاحال ہمیں انصاف نہیں مل سکا ہے۔ ہم ایک بار پھر حکام بالا، علاقائی و عالمی انسانی حقوق کے تنظیمیوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ ودود ساتکزئی سمیت تمام لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے اپنا کردار ادا کریں۔
گل زادی بلوچ کا مزید کہنا تھا کے ہم دیگر لاپتہ افراد کے لواحقین کی طرح ہم بھی یہ مطالبہ دہرانا چاہتے ہیں کہ اگر کسی پر کوئی الزام ہے تو اس کو ملکی قوانین کے تحت عدالت میں پیش کرکے قانونی تقاضے پورے کیے جائیں۔
جبکہ دوسری جانب ودؤد ساتکزئی و نصیب اللہ بادینی کے باحفاظت بازیابی کے لئے بلوچ سوشل میڈیا ایکٹویسٹس کے جانب سے احتجاجی کیمپئن بھی چلائی جارہی ہے اور لاپتہ افراد کو باحفاظت منظر عام پر لانے و جبری گمشدگیوں کے خلاف ٹوئیٹ کی جارہی ہے –