کب تک بلوچستان ننگا بھوکا سوتا رہے گا ؟ ۔ اعظم الفت بلوچ

417

کب تک بلوچستان ننگا بھوکا سوتا رہے گا ؟

تحریر: اعظم الفت بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

صدیاں گذرگئیں لیکن بلوچستان آج بھی بھوکا ننگا ہے، دنیا چاند پر پہنچ گئی ،لیکن بلوچستان کا باسی آج بھی بھوکاننگا ہے، حالانکہ بلوچستان کو قدرت نے ہر دولت سے مالامال کیا ہے ،وسائل بلوچستان کی کم اور بکھری آبادی کےلئے کئی گنا زیادہ ہیں ،لیکن بلوچستان کا باشندہ آج بھی تمام وسائل سے نہ صرف محروم ہے بلکہ پہاڑ جیسے مسائل کاسامنا بھی کررہاہے ،اس لئے بلوچستان کے وسائل سے زیادہ اسکے باتیوں کے مسائل زیادہ ہیں ،اگر وسائل کے پہاڑ ہیں تو مسائل بھی پہاڑ جیسے ہیں ،مکران کے گہرے سمندری ساحلوں سے لے کر چاغی اور ریکوڈک کی سونے اور تانبے کی پٹی تک؛ ڈیرہ بگٹی کے قدرتی گیس کے ذخائر سے لے کر نصیر آباد کی گرین بیلٹ تک، قدرت نے بلوچستان کو قدرتی وسائل اور چار موسموں سے نوازا ہے۔ تاہم بلوچستان کی بکھرے آبادی قرون وسطیٰ کے دورکی زندگی بسرکرنے پرمجبورکردیئے گئے ہیں، دانستہ طور پر اس خطے کو لاوارث اورپسماندہ رکھنے کی کوششیں آج بھی جاری ہیں ،کراچی سے کوئٹہ براستہ چمن تک قومی شاہراہ ہمیشہ تباہ حالی کا منظر پیش کرتی ہے۔ اس شاہراہ نے اتنی جانیں لی ہیں کہ اب بلوچستان کے لوگوں نے اس شاہراہ کا نام خونی روڈ رکھ دیا ہے ۔

بلوچستان کے عوامی نمائندوں، نام ونہادقوم پرست جماعتوں سے لے کر اسلام آباد کے ایوانوں میں موجودمقتدرہ نے کبھی بھی صوبے کے باسیوں کو بہتر معیار زندگی فراہم کرنے کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش کرنے کی زحمت نہیں کی۔

بلوچستان کے لوگ مریخ کے نہیں ہیں، وہ ہزاروں سالوں سے اس خطے میں رہ رہے ہیں۔ سرکاری طور پر ملک کی گیس کی ضرورت میں بلوچستان کا حصہ 40 فیصد ہے لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ قدرتی گیس کا بڑا ذریعہ سوئی اور ڈیرہ بگٹی نکلتی ہے لیکن آج بھی یہاں کے عوام اس سہولت سے محروم ہیں یعنی انہیں گیس کی سہولت میسر نہیں۔ بلوچستان میں ترقی اصلاحات اور بہتری کاراگ ہر دورمیں الاپی گئی لیکن ترقی نہیں ہوئی ۔نہ ہی کسی نے اس جانب توجہ دی نتیجہ یہ ہے کہ آج یہاں کے عوام ترقی کو استحصال قراردینے کے خدشات کااظہارکررہے ہیں انہی خدشات کے اظہارپر کئی لوگ لاپتہ کردیئے گئے ہیں۔

اس طویل عرصے میں کیا بلوچستان کو صحت، انفراسٹرکچر، تعلیم اور مواصلات کے ذرائع سمیت بنیادی سہولیات فراہم کی گئی ؟ دنیا کی ہر نعمت سے بلوچستان کے عوام کو کیوں محروم رکھا جا رہا ہے۔ یعنی ان کو انسان ہی نہیں سمجھا گیااسلئے انھیں زندگی کی بنیادی ضروریات فراہم نہیں کی گئیں۔ اس لوٹے پٹے بلوچستان میں لوگوں میں عجیب سی کیفیت پائی جاتی ہے، ہر طرف مایوسی ہی مایوسی چھائی ہوئی ہے کیونکہ بلوچستان اور اسکے عوام کوتمام پہلوو¿ں سے نظر انداز رکھا گیا ۔ ناخواندگی، ناانصافی، خواتین پر ظلم، انفرادی حقوق سے لاعلمی وہ برائیاں ہیں جو اس وقت بلوچستان کے عوام پر غالب کردیئے گئے ہیں۔ تقریباً 88 فیصد آبادی انتہائی محرومی کی زندگی گزار رہی ہے۔

مختصراً اگر کہا جائے تو بلوچستان مظلوموں کی سرزمین ہے اس کا کوئی والی وارث نہیں۔ قدرت نے بلوچستان کو بے شمار قدرتی وسائل سے نوازا لیکن اس کے باشندوں کو کبھی سکون اور بہبود،راحت نصیب نہیں ہوئی، اس کی چھوٹی سی مثال سوئی کی قدرتی گیس ہے جس کے واحد محافظ کو بھاری ادائیگیاں کی جاتی ہیں۔ لیکن عوام کے فلاح وبہبود پر خرچ نہیں کیا جاتا ہے. درحقیقت بلوچستان نے اپنے قیام سے لے کر اب تک کوئی ترقی نہیں دیکھی اگر یہ کہا جائے تو بجا ہوگا کہ پاکستان کو کھانا کھلانے والا صوبہ سب سے غریب ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ 2020میں ایک رپورٹ میں بلوچستان کو ایشیا کا غریب ترین خطہ قرار دیا گیا جوہماری آنکھیں کھولنے کےلئے کافی ہے کہ بلوچستان کی ترقی اور خوشحالی کے لیے کسی نے بھی کوئی سنجیدہ اقدام نہیں کیا ۔

استحصالی اورظالمانہ نظام کے باعث اندرون بلوچستان کے عوام کی حالت بہت ہی خراب ہے، دیہی علاقوں سے تعلق رکھنے والے لوگ بھوک سے مر رہے ہیں پینے کے صاف پانی تک میسر نہیں ،بلند بانگ دعوو¿ں اور میگاپراجیکٹس جیسے منصوبوں کے باوجود بلوچستان کو غربت کے سوا کچھ نہیں ملا۔

گوادر، جہاں CPEC پر کام جاری ہے،لیکن گوادر کے عوام پانی کی ایک بوند کو ترس رہا ہے،گوادرکے ماہی گیرگزشتہ پندرہ دنوں سے دھرنے پر بیٹھے ہوئے ہیں حکومتی نمائندوں سے ہونے والی مذاکرات بھی ناکام ہوگئی ۔ ماضی کی طرح موجودہ وفاقی حکومت کی پالیسیاں بھی عوام کو دیوارسے لگانے کے مترادف ہے، نام ونہاد منتخب نمائندے بھی عوام کے تحفظات کی نشاندہی اور ان سے نمٹنے میں بری طرح ناکام رہے ہیں۔ پچھلی تمام جمہوری حکومتوں نے بھی اس مسئلے کو سیاسی طور پر حل کرنے کے راستے میں رکاوٹ بنے لیکن کوئی احسن اقدام نہیں اٹھایا۔ دولت سے مالا مال بلوچستان کے ماوں کی چھاتیاں بھوک کی وجہ سے خشک ہوتے جارہے ہیں، سفید پوش لوگ ہاتھ پھیلانے پر مجبورکردیئے گئے ہیں،آخر بلوچستان کو غربت کی دلدل میں کس نے دھکیلا ہے؟ کب تک نام ونہاد جمہوریت یانام ونہادپارٹیاںعوام پر م±سلط ہوتے رہیں گے؟ کب تک یہ زبان یوں خاموش رہے گا؟ کب تک مِظلوموں کی آہ و زاری ہوتا رہے گا؟ کب تک خوف کے دامن میں عوام جیتا رہے گا؟ کب تک بلوچستان ننگا بھوکا سوتا رہے گا؟


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں