علی وزیر تو غلام دھرتی کا آزاد خواب ہے ۔ محمد خان داؤد

149

علی وزیر تو غلام دھرتی کا آزاد خواب ہے

تحریر:محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

علی وزیر کا جرم اتنا بڑا تو نہیں جتنا بڑا جرم راؤ انوار کا ہے
علی وزیر کا جرم اتنا بڑا تو نہیں جتنا احسان اللہ احسان کا ہے!
علی وزیر کا جرم اتنا بڑا تو نہیں جتنا پرویز مشرف کا ہے!
علی وزیر کے پاس تو بس باتیں تھیں،اس کے پاس تو حکم بھی نہیں تھا کہ وہ حکم دیتا اور کیا سے کیا ہو جاتا
علی وزیر کے پاس توبس خواہشات تھیں کہ
”ایسا ہوتا تو کیا ہوتا
ویسا ہوتا تو کیا ہوتا!“
علی وزیر تو بندوق بردار بھی نہیں کہ جس نے ماؤں کا گود اُجاڑا ہو اور پرانے قبرستان میں نئی قبریں بن گئیں ہوں اور مائیں اس خدا کو تلاش رہی ہوں جس خدا کو آج تک مریم بھی تلاش رہی ہے۔

علی وزیر نے کسی مشال کے جسم پر لاٹھیاں نہیں برسائیں کہ جب کسی مشال کا خون میں لت پت جسم اس ماں کے پاس جائے اور کوئی بے شرم میڈیائی نمائیندہ اس گھائل ماں سے یہ بے ہودہ سوال کرے کہ
”مشال کو کہاں کہاں چوٹیں آئیں؟“
تو وہ ماں جو اپنے حال میں نہیں بے حال ہو ایسا بے ہو دہ سوال سن کر سکتے میں آجائے
اور جب ہوش بحال ہوں تو اس بے شرم میڈیائی نمائیندے کو جواب دے کہ
”جب میں نے مشال کا ہاتھ چومہ تو اس کے ہاتھ کی سب انگلیاں مسخ تھیں!“
اور پھر وہ رونے لگے۔

علی وزیر نے تو کسی آرمی پبلک اسکول میں گھس کر کسی بچے کوگولی نہیں برسائی وہ تو میلے بچوں کے گم شدہ باباؤں کی گمشدگی پر بات کرتا ہے اور میلے بچے کے میلے گالوں کو چومتا ہے اور ان میلے گالوں پر تتلیاں بنتا ہے۔

علی وزیر کے اندر راؤ انوار کی روح نہیں کہ وہ کسی بھی پشتون کو اُٹھا لے اسے رات کے شروعاتی پہروں میں کراچی کے مضافاتی ایریاز میں لے جا کر قتل کر دے اور جب میڈیا کو بُلائے اور اس میڈیا کو وہ بہت مطلوب شخص کی لاش دکھائے تو اس کے ہاتھ موٹی رسی یا سرکاری ہتھکڑی سے پشت پر بندھے ہوئے ہوں اور میڈیا بے شرم ورکر بھی ایسے اندوناک سانحات پر واہ واہ کرتے پھریں۔

علی وزیر کا جرم اتنا بڑا بھی نہیں کہ جتنا وہ جرم تھا جس میں ایک مزدور بوڑھے والد اور ان پڑھ معصوم ماں کے سامنے ایک خواب مثل حیات بلوچ کو قتل کر دیا گیا اور وہ ماں آج تک مریم کی ماند اپنے ہاتھ اُٹھائے اس خدا کو تلاش کر رہی ہے جو ہر جگہ ہے پر جو کہیں نہیں
اگر ہے تو کیوں نہیں آتا ان دکھی ماؤں کے پاس
اگر نہیں تو اپنے نہ ہونے کا اعلان کیوں نہیں کرتا!
علی وزیر کا جرم کتنا بھی بڑا ہو پر کیا اس سے بڑا جرم ہے کہ ماؤں کے سامنے گھروں میں گھس کر محبوباؤں کی بانہوں سے محبوب کو اُٹھا لیا جاتا ہے مائیں رو تی رہ جا تی ہیں۔بہنیں ماتم بن جا تی ہیں۔بچے سوالیہ نشان بن کر اپنے گم کیے بابا کا پتا پو چھتے رہ جا تے ہیں
اور محبوبائیں پہلے ہاتھ میں پہنی چوڑیاں توڑتی ہیں
پھر مانگ کو میلی کرتی ہیں
پھر ان کا دل ٹوٹ جاتا ہے
اور پھر سب چیزیں سفر میں لگ جا تی ہیں
پیر بھی
اور نین بھی
دیدبھی
اور درد بھی!
علی وزیر کا جرم بہت بڑا جرم ہے پر کیا علی وزیر کا جرم اتنا بڑا ہے جتنا بڑا جرم اس الطاف حسین کا ہے جو
قتل بھی کرامات سے کرتا تھا
گالیاں بھی دل کھول کر دیتا تھا
اور سب ادارے اس فکر میں رہتے تھے کہ کہیں صاحب ناراض نہ ہو جائے؟
علی وزیر کے پاس تو بس باتیں تھیں،نکھری نکھری باتیں،سُلجھی سُلجھی باتیں،نئی اُمید نئی سحر کی باتیں۔نئے گھس (راستہ)نئے پیچرے کی باتیں!
علی وزیر کے پاس تو پو ری اردو بھی نہیں ہے.
وہ چالیس سال کے ہونے کو ہیں
پر آج تک اس کے لبوں پر مور کی زباں ہے
میٹھی میٹھی،ٹھنڈی ٹھنڈی سفید سفید
وہ ایسی میٹھی زباں کے میٹھے الفاظ میں کسی کو کیسے گالی یا گولی ما رسکتا ہے؟
گولی اور گالی والے آزاد ہوگئے
اور خوابوں کو قید میں ڈال دیا گیا ہے
علی وزیر بھی تو بس ایک خواب ہے ایک سپنا ہے
جو پہاڑوں کے کچے گھروں میں کنواری آنکھوں میں دیکھا گیا ہے اور اب ہر زی بشر یہ چاہتا ہے کہ وہ اس کوکنواری آنکھوں والے سپنے کو دیکھے اگر نہیں دیکھ پاتا تو کوئی آئے اور آ کہ اسے اس سپنے کے بارے میں بتائے جس سپنے نے شمالی،اور جنوبی وزیرستان کی نیندیں حرام کی ہوئی ہیں.
ایسا سپنا جیسا سپنا سرمچار پہاڑوں کی آغوش میں سوتے دیکھتے ہیں اور جب صبح نیند سے بیدار ہو تے ہیں تو اپنے ساتھیوں کو سنا تے ہیں اور کوئی نیا گیت گا تے ہیں
”تم بندوق کی نال کو سرد مت ہونے دینا
یہ گرم نال نئے خواب جنے گی
نئے گیت جنے گی
جیا دیس جنے گی!“
اور پھر پہلی اور آخری بار دل کھول کر ہنستے ہیں
تو علی وزیر تو بس ایک خواب ہے
ایک سپنا ہے
اور وہ چاہتا ہے کہ جو اس کی نیندوں میں خواب آئے ہیں جن خوابوں نے اس کی نیند کو ختم کیا ہے جو خواب اسے سونے نہیں دیتے وہ خواب پنجاب کے لاہور سے لیکر سندھ کے کراچی اور کیٹی بندر تک.
بلوچستان کے کوئٹہ سے لیکرپختون خواں کے شمالی اور جنوبی وزیرستان کی آنکھوں میں بھر دے اور لوگ انساں سوئیں نہ پر ان خوابوں کو حقیقت میں بدل لینے کے لیے جاگتے رہیں اور آگے بڑھتے رہیں
اس دن کراچی میں بھی تو علی وزیر خوابوں کی بات کر رہا ہے
اور اپنی مور بی بی کی زباں میں وہ یہی کہہ رہا ہے کہ
“جیسے ایک پتے کا وقت گزر جاتا ہے
اور وہ مرجھا جاتا ہے
اور درختوں سے ٹوٹ کر زمیں پر گر جاتا ہے
اے میری دھرتی کے لوگوں ہوشیار رہو
جیسے گھاس کے بدن پر شبنم قطرہ
بس ایک گھڑی کو رہتا ہے
ایسا ہے انسان کا جیون
اے میری دھرتی کے لوگوں ہوشیار رہو!“
یہ تو دل کو خوابوں جیسی باتیں ہیں یہ ایسی باتیں نہیں کہ ان باتوں کو اتنا بڑا جرم بنا کر تم پہاڑوں جیسے علی وزیر کو زنجیریں پہنا کر پہلے شہر کا گشت کراؤ
اور پھر اندھیری کوٹھڑی میں بند کرو
جرم تو انہوں نے کیے
جو ماؤں کے لختے جگروں کے سینوں کو بارود سے بھر دیتے تھے
محبوباؤں کی بانہوں سے محبوب کو رات کی سیاہی میں اُٹھا لیتے تھے
ماؤں کو مسافر بنا دیتے تھے
دونوں ہاتھ پشت پہ باندھ کر آنکھوں پر پٹی باندھ کر.
سینے میں گولیاں اتار دیتے تھے
اور بے شرم میڈیائی نمائیندے
واہ واہ واہ کیے جا تے تھے
وہ اندھے دیس کے
بڑے مجرم کہاں ہیں؟


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں