بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے مرکزی ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں حالیہ دنوں طالب علموں کی جبری گمشدگی میں تیزی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ طلباء کو مسلسل ٹارگٹ بنایا جا رہا ہے اور انھیں جبری طور پر لاپتہ کرتے ہوئے انھیں اذیت خانوں کے نظر کیاجا رہا ہے۔بلوچستان میں ریاستی بربریت کی وجہ سے عوام کا کاروبار ٹھپ ہوکر رہ گیا ہے جس کے بعد بہت ہی کم تعداد میں لوگ اپنے بچوں کو تعلیمی اداروں میں بھیجنے میں کامیاب ہوتے ہیں مگر ریاست انہی پر جبر کے پہاڑ توڑ رہی ہے اور طالب علموں کیلئے دانستہ طور پر ایسا ماحول بنایا جا رہا ہے تاکہ طالب علم جبری گمشدگی کے ڈر سے اپنی تعلیم چھوڑ دیں جبکہ والدین اپنے بچوں کو تعلیمی اداروں میں بھیجنے سے گریزاں رہیں مگر ریاستی بربریت کسی بھی طرح طلباء کے اندر قومی شعور کو ختم نہیں کر سکتا۔
ترجمان نے کہا کہ بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کا سلسلہ گزشتہ دو دہائیوں سے جاری ہے، ایک طرف ریاست اور اس کے کٹھ پتلی حکومتیں دعوی کرتی ہیں کہ لاپتہ افراد کو رہا کیا جا رہا ہے، اس حوالے سے پاکستان کے خودساختہ اسمبلی میں ایک بل بھی پاس کیا گیا ہے مگر دوسری جانب بلوچستان میں ہر گزرتے دن اس میں شدت دیکھنے کو مل رہی ہے۔ طالب علموں کو لاپتہ کرنے کا بنیادی مقصد بلوچ نوجوانوں کے اندر مایوسی، خوف اور ڈر پیدا کرنے کی کوشش ہے تاکہ وہ آزادنہ طور پر سوچ بھی نہ سکیں جبکہ بلوچستان یونیورسٹی ہاسٹل سے نوجوانوں کی جبری گمشدگی کسی بھی بڑے المیے سے کم نہیں۔ ہاسٹل سے طالب علموں کی جبری گمشدگی سے لگتا ہے کہ انتظامیہ ریاستی کارندوں کا کردار ادا کر رہا ہے۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو ہاسٹلز کے اندر طلباء ذہنی مرض میں مبتلا ہونگے۔
ترجمان نے کہا کہ بی ایس او جیسے طلباء تنظیم کے خلاف ریاستی کریک ڈاؤن، کتابوں پر پابندی اور مرکزی و یونٹ ممبران کی اغواء نما گرفتاری و قتل اس بات کا ثبوت ہیں کہ ریاستی فورسز کے ہاتھوں بلوچستان میں کوئی بھی طبقہ محفوظ نہیں۔طالب علم جن کا زیادہ تر وقت علمی و اکیڈمک سرگرمیوں میں گزرتا ہے انہیں گمشدہ کرکے ریاست تمام نوجوانوں کو ایک خوف میں مبتلا کرنے کی کوشش میں ہے تاکہ نوجوان فکر و سوچ بھی نہ سکیں۔
بلوچ عوام اور انسانی حقوق کے اداروں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ طالب علموں کی جبری گمشدگی کے خلاف آواز اٹھائیں تاکہ بلوچ طالب علم کسی خوف کے بغیر اپنی تعلیمی سرگرمیاں جاری رکھ سکیں۔