سرخ ہونٹ آگے بڑھ کر انہیں چوم لیں گے
تحریر: محمد خان داؤد
دی بلوچستان پوسٹ
بھلے دھرتی اور دیش کے شہیدوں کا ذکر مقدس اوراق میں نہ ہو
بھلے دیس اور دھرتی کے شہیدوں کا ذکرنبیوں کے لبوں پر نہ ہو
بھلے دیش بھگتوں اور پنکھوں سے پیار کرنے والوں کے کوئی مزار نہ ہوں
بھلے وہ بھلا دیے جائیں اور زمانے سے حروف مکرر کی طرح مٹا دیے جائیں
بھلے دیس اور دھرتی کے عاشقوں کا کوئی قافلہ کسی راہ گزر سے اب نہ گزرے!
بھلے ان کی دھول آلود جوتیاں اورلہو سے سرخ سرخ پھٹے قمیضیں خالی کنوؤں میں پھکوادی جائیں
بھلے سرد لاش کا سفر باقی رہے اور مردہ وجودوں کو تیل چھڑک کر آگ لگا دی جائے
اور پیچھے مائیں روتی رہ جائیں!
بھلے ان کے لیے عیسیٰ نہ آئے موسیٰ نہ آئے
کوئی وحی نہ ہو کوئی کلام نہ ہو!
پر ماؤں کے گرم آنسوؤں کو کہاں رکھو گے؟
وہ آنسو جو کوہِ طورکو جلا بھی سکتے ہیں اور موسیٰ کی لگی آگ بھجا بھی سکتے ہیں۔
وہ دیش بھگت جن کو مقدس کتابیں ”شہید“کے القابات میں یاد رکھنے کی کوشش کرتی ہیں اور نہ چاہتے ہوئے بھی دیش دروہی مقدس کتابوں کے ان اوراق سے گزرہی جا تے ہیں ان کی نظریں اور ہاتھ کی انگلیاں وہاں ٹھہر ہی جا تی ہیں جہاں سفید پنوں پر سیاہ سیاہی میں لکھا ہوتا ہے”شہید!“
بھلے مسخ زمانہ دیس دھرتی کے شہیدوں کو مسخ کرنے کی کوشش کی کوشش کرے پر وہ ایسے پھول ہیں کہ پھر سے کھل اُٹھتے ہیں اور دنیا کو خوشبو سے بھر دیتے ہیں!
بھلے ان کے لیے کوئی گیت نہ لکھے پر جب دھرتی گیت گائے گی وہ کہاں رکھو گے؟
دھرتی جھومے گی اور ان کے لیے نئی سحر نئی اُمید کا گیت گائے گی!
دھرتی مسخ چہروں کو سرخ کرتی ہے اور یہ سرخ رو چہروں کو مسخ کرتے ہیں۔
مسخ چہرے پھر دھرتی میں دفن ہوکر سر خ رو ہو جا تے ہیں اور دھرتی دلہن کی طرح سنور جا تی ہے۔ یہ،وہ،ہم،تم یا یہ سن مسخ چہروں کو تو بھلا سکتے ہیں پر دھرتی اپنے عاشقوں کو کبھی فراموش نہیں کرتی،وہ دھرتی کے لیے شہید ہو تے ہیں وہ دھرتی کے لیے ٹارچر سیلوں میں جا تے ہیں، وہ گلابی لبوں،اور پسینے سے بھرے پستانوں کو بہت پیچھے چھوڑ کر دھرتی سے، دھرتی کی محبت میں جڑ جا تے ہیں، وہ دھرتی کے لیے اپنے نازک جسموں پر ڈرل مشینوں کے سوراخ برداشت کرتے ہیں، وہ دھرتی سے عشق کے لیے اپنے جسموں پر سگریٹوں کے داغ سہتے ہیں۔ وہ دھرتی کے لیے گالی اور گولی سہتے ہیں،وہ دھرتی کے لیے اپنے جسموں پر تشدد برداشت کرتے ہیں اور جب ان کے جسموں پر تشدد کا بات بڑھ جاتا ہے تو ان کی پاکیزہ زباں پر ایسے ہی الفاظ آتے ہیں کہ
”ملی تہ ملندیاس
نہ تہ گھوری جان جتن تا!“
جت جو ایک دیس ہوتا ہے،ایک دھرتی ہو تی ہے جو نہیں ملتی یہ اس دیس،دھرتی سے جت سے مل جا تے ہیں،انصاف بہت دور ماتم کرتا رہ جاتا ہے دھرتی سے عشق سرخ رو ہوتا ہے
اور قدرت گانے لگتی ہے وہ گیت جو اس سے پہلے قدرت نے کسی کے لیے ہیں گایا
وہ گیت سکھیوں نے اپنے پیاؤں کے لیے گایا ہے
یا وہ گیت ان لڑکیوں نے اپنے محبوب کے لیے گایا ہے جو ان کے پستانوں کو پہلی بار چھوتے ہیں اور وہ پستان دودھ سے بھر جا تے ہیں
یا وہ گیت ان لڑکیوں نے گایا ہے جو محبوب سے ملنے کہ بعد پہلی بار مائیں بنتی ہیں اور ان سے سب کچھ بھول جاتا ہے
یا وہ مائیں گا تی ہیں جن کے دولہا جیسے بیٹے دیش دروہییوں کے ہاتھوں مارے جا تے ہیں
اور وہ مائیں امتحان میں آجا تی ہیں کہ وہ ماتم کریں؟
یا ان ہاتھوں،پیروں پر مہندی لگائیں جو مر کر لہو لہو ہوکر ان تک پہنچے ہیں
وہ نوحہ خوانی کریں یا ان کے چہروں پر سہرا باندھیں؟
پھر وہ گیت گا تی ہیں
دھرتی کا گیت،شہیدوں کا گیت،محبت کا گیت!
یا وہ گیت قدرت گا تی ہے اور سب سحر انگیز ہو کر یہ گیت سنتے ہیں
ہم بہرے ہیں ہم نہیں سن پائیں گے ہما رے کانوں میں اتنی سکت ہی نہیں کہ قدرت کے لبوں اور دھرتی کی جنش کو محسوس کر سکیں اور سن سکیں وہ گیت جو دھرتی نے دھرتی کے عاشقوں کے لیے گایا!
ہاں وہ شہید ہو تے ہیں جو دھرتی سے،دھرتی کی محبت میں جھول جا تے ہیں قتل کر دیے جا تے ہیں مار دیے جا تے ہیں پھانسی گھاٹوں پر پہچائے جا تے ہیں،جلادیے جا تے ہیں وحشیانے تشدد کے حوالے کر دیے جا تے ہیں اندھے کالے اور سوکھے کنوؤں میں پھکوادیے جا تے ہیں۔گم کر دیے جا تے ہیں مسخ چہروں سے روڈ کنارے پھینک دے جا تے ہیں۔ان کی کوئی شناخت باقی نہیں رہتی تو دھرتی میں دفن کر دیے جا تے ہیں جب ان کے وجود دھرتی میں دفن ہوچکے ہو تے ہیں تو دھرتی جاگ جا تی ہے،چاند مزید روشن ہوجاتا ہے،سورج نئی کرنیں لیے دنیا میں آتا ہے،گلاب مزید سرخ ہو جا تے ہیں
اور محبت کے ہاتھ انہیں ٹٹولتے ہیں!
یہی کچھ ناظم جوکھیو کے ساتھ ہو ریا ہے
ناظم کے ساتھ انصاف تو نہیں ہوگا کیوں کہ اس ملک میں انصاف سرداروں،بھوتاروں،وڈیروں،میروں،پیروں کے گھر کی لونڈی ہے اور ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ بھوری آنکھوں والے پہلے ناظم کو قبر میں دفن کیا پھر اس کیس کو جس کیس کے لیے سندھ جاگ اُٹھا تھا!
پر دھرتی!عاشقوں کو فراموش نہیں کرتی
دھرتی عاشقوں کے ناحق قتل پر روتی بھی ہے اور گیت بھی گاتی ہے
اور عاشقوں کو اپنے رنگ میں رنگ بھی دیتی ہے
اور دھرتی کا رنگ ہے
لال!گاڑھو!لہو لہو!ھلوان!کھونبھو!
ناظم کو بھی دھرتی نے ان تمام رنگوں میں رنگ دیا ہے
بھلے جام تمام کیسوں سے بری ہو جائے،بھوری آنکھوں والا امیر ہو جائے
پر کیا دھرتی اپنے عاشق کو فراموش کر سکتی ہے؟
جب کوئی دھرتی کے لیے جان دیتا ہے تو دھرتی حسن،خوشبو،خوبصورتی اور تمام رنگوں سے کہتی ہے کہ میرے عاشق کے گیت گاؤ
اور ہم دیکھتے ہیں نازک لب اپنے پیارے ہونٹوں سے انہیں یاد کرتے ہیں جو دھرتی پر وارے گئے
گورے پستانوں پر وہی لاکٹ جھول رہا ہوتا ہے جس لاکٹ میں وہ نام لکھے ہو تے ہیں جو دھرتی پر وارے گئے
کوئی گورے پیارے خوبصورت ہاتھ کینواس پر ناظم کو تخلیق کر رہے ہو تے ہیں
خونبصورت بدنوں پر وہی ٹی شرٹ کسی پرچم کی طرح جھول رہی ہو تی ہے جو دھرتی کی نظر ہوئے
اور یہی ان کا انعام ہے
”جڈھن خون منھنجو خوشبو تھی ایندو
تہ ویھڑا وطن جا بہ واسے چھڈیندو!“
دھرتی خوبصورت بدن،پیارے ہاتھ،سرخ ہونٹوں سے اپنے عاشقوں کے گیت گواتی ہے
”گیت جو دھرتی گاتی ہے
دھرتی کے شہیدو
رنگ
خوشبو
نازک سرخ رو ُلب
اور جہاں بھر کی تمام تر خوبصورتی تمہا رے
در کی نوکر ہے
اجازت دو
اجازت دو
اجازت دو
تو کوئی سکھی سرخ ہونٹوں سے کہہ اُٹھے
”لال لہو میں ڈوبا ڈوبا
توری بیل کا پیلا پھول
ہوا درختوں میں روتی ہے
ہائے!دیس باسیو!کیسی بھول!“
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں