رویوں کو بدلو
تحریر:مُھیم مکرانی
دی بلوچستان پوست
جب بلوچ قومی آزادی کی جدید تحریک کا آغاز ہوا تو بنیادی مزاحمتی تنظیم بی ایل اے تھا جنگ شدت اختیار کرنے لگا نئے نئے مزاحمتی تنظیموں کے ساتھ ساتھ نئے نئے لیڈران اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھانے میں کامیاب ہوتے گئے ۔
جنگ اپنی منزلِ مقصود کی طرف جوش و جذبے کے ساتھ رواں تھی ۔ پھر اچانک عجیب و غریب اختلافات نے سر اٹھالیا یہ اختلافات نا تو سیاسی تھے اور نا ہی غیر سیاسی بلکہ میں تو کہتا ہوں بازاری تھے ۔
کیونکہ ان اختلافات میں نا کسی کی ماں کو بخشا گیا اور نا ہی بہن کو ۔
لیکن پھر بھی یہ اختلافات صبر و دور اندیشی کی بدولت ایک کامیاب اتحاد کی طرف گامزن ہوا ۔
کیونکہ اتحاد اسلئے کامیاب ہو پایا سردار ایک طرف اور مڈل کلاس ایک طرف ہوگئے۔ بی ایل اے دو دھڑوں میں بٹ گیا جیئند اور آزاد ، پھر بی آر اے اسی طرح بیبگر اور سرباز۔
جو وجود رکھتے ہیں اور بلوچ قومی آزادی کیلئے لڑ رہے ہیں بلوچ عوام میں حمایت حاصل کر رہے ہیں وہ مڈل کلاس لیڈران ہیں جنھوں نے اس اندھا دھندہ فیصلے کو شعوری اور کامیاب رخ دے دیا۔ آج بلوچ نوجوان آزاد اور سرباز کو اک پریشر گروپ تصور کرتی ہے جو محاز میں افرادی قوت سے محروم ہوگئے ہیں جس کی وجہ وہ لوگ ہیں جن کی انا اور گھمنڈ کی وجہ سے آج آزاد اور سرباز علاقے میں وجود نہیں رکھتے ۔
اب آتے ہیں یو بی اے کی طرف سارے تجربے اور بلوچ نوجوانوں کا رد عمل دیکھتے ہوئے بھی اپنی انا و گمنڈ اور لاشعوری کی وجہ سے دو دھڑوں میں بٹ گیا ۔ اب حقیقت جانیئے ۔
بلوچ قومی تحریک میں یہ واحد مزاحمتی تنظیم ہے جو ساتھیوں کی بڑھتی ہوئی صورتحال کو دیکھ کر اُنہیں فارغ یا نکال دییتا ہے ۔
جب نئے ساتھی لئے جاتے ہیں اُن پر بھروسہ نہیں کیا جاتا کہ وہ ہمیں چھوڑ کر ہماری مڈیاں لے جائینگے اگر بلوچ تحریکِ آزادی کے سارے تنظیم اس سوچ کی بنیاد پر مڈیوں کی رٹہ لگاتے رہے تو لڑے گا کون اگر کچھ کرنا چاہتے ہو بلوچستان کے کوچے کوچے میں خود کو پانا چاہتے ہو تو پھر اپنے اندر اس ڈر کو مار بھگا دو اور بھروسے کو اپنی طاقت بنادو تب منظم شکل اختیار کر پاؤگے ۔
نہیں تو معدومیت مقدر بن ہی جاتی ہے آزاد اور سرباز بلوچ عوام اور نوجوانوں میں اپنی حمایت کھو چُکا ہے ۔اس تجربے کو زہن نشین کرتے ہوئے یو بی اے مزار کے لیڈران کو اپنی سابقہ رویوں اور سوچ و بچار کو نقطہ چینی کرنی ہوگی جو مستقبل کیلئے ایک مثبت قدم اٹھا سکے اور اپنی تنظیم کو معدومیت سے بچا سکے نواب بابا مری اور اُن شھیدوں کے ارمانوں اور خوابوں کو رائیگاں نہ جانے دے اور اپنی تنظیم کو اک پریشر گروپ سے بلوچ قومی تاریخ میں ادارے کی شکل دے کر اپنی جدوجہد کو آگے بڑھا سکے ۔
اور اُن غیر زمہ دار ذمہ اران کو ادارے کے حصولوں کی بنیاد پر سزا و جزا مقرر کرے ۔ جو تنظیم کے خلاف عوام الناس میں بد اعتمادی پیدا کررہے ہیں ۔
بلوچ غیرت کے ساتھ کھیل رہے ہیں تنظیم کے لیڈران اور سینیئر زمہ داران کے خلاف شعوری طورپر لاشعورانہ گفتگو کررہے ہیں جو ایک ادارے کیلئے قابلِ قبول نہیں لیکن پھر بھی ادارے میں خاموشی کیوں؟ بلوچ عوام اور نوجوان طبقہ اس عمل کو کس نگاہ سے دیکھے گی یہ فیصلہ اُن سینیئر زمہداران کی ہے جن پر بلوچ عوام نوجوان اور ساتھیوں کی امیدیں وابستہ ہیں ۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں