جبری گمشدگیوں کا لامتناہی سلسلہ اور بلوچ طالب علم
تحریر: داد بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچستان میں جنگل کا قانون بدستور جاری ہے. فوجی آپریشنز، جبری نقل مکانی، فیک انکاؤنٹر، ماورائے عدالت قتل عام اور جبریگمشدگیوں نے عوام کی زندگی دگرگوں بنادی ہے.
بلوچستان میں جبری گمشدگی کی ابتداء1976 میں ہوئی، جب بلوچستان سے تعلق رکھنے والا اسد اللہ اپنے ساتھی سمیت لاپتہہوا.اسد اللہ مینگل نیشنل کالج کراچی میں زیر تعلیم تھا. اسد کہاں ہے. آج تک یہ ایک معمہ ہے.
اکیسویں صدی کے آغاز میں جب بلوچ قومی تحریک ایک نئے جوش ولولے اور شعور کی بنیاد پر داخل ہوئی تو اس تحریک کو کاؤنٹرکرنے کیلئے سماج میں بے راہ روی اور خوف کے ماحول کو بھی پروان چڑھایا گیا. ریاست اور اسکے اداروں کی بھر پور کوشش تھیکہ بلوچستان کے مختلف طبقات کو خوف کا ایسا ماحول فراہم کیا جائے کہ وہ خاموشی اختیار کرنے کی طرف گامزن ہوں۔
مارچ 2005 کو بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے بانی ڈاکٹر اللہ نذر کو ساتھیوں سمیت لاپتہ کیا گیا. 2006 کو شہید غلاممحمد لاپتہ ہوئے.
سیاسی کارکنوں کی گمشدگی اور بازیابی کا یہ سلسلہ معتدل سطح تک جاری و ساری تھا.
دو ہزار آٹھ کے الیکشن میں فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ڈیل کے نتیجے میں پیپلز پارٹی بر سر اقتدار آئی. بلوچستان کے زخموں پرنمک چھڑکنے کے لئے بلوچستان حقوق پیکج کا اجراء کیا گیا. دراصل یہ حقوق پیکج نہیں بلکہ موت پیکج تھا جس نے ہزاروں بلوچنوجوانوں کو ریاستی اداروں (کرپشن الائنس) کے سرچ اینڈ ڈسٹرائے پالیسی کے تحت جبری گمشدگی اور مسخ شدہ لاشوں کیصورت میں بر آمد کیا.
بلوچ نیشنل موؤمنٹ اور بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے درجنوں لیڈران اور سینکڑوں کارکنان کو جبری گمشدگی کا شکار بنا کرشہید کردیا گیا اور آج بھی سینکڑوں کی تعداد میں سیاسی کارکنان جبری گمشدگی کا شکار ہیں۔
بلوچ سیاسی طالب علموں اور سیاسی کارکنان کی جبری گمشدگی کے علاوہ ریاست نے اجتماعی سزا کے تسلسل کو بھی جاریرکھا، 2015 میں خواتین کو بھی شہید اور جبری گمشدگی کا نشانہ بنانا شروع کیا. ایسے کئی مثالیں موجود ہیں کہ بلوچ خواتین کوگمشدہ کرکے آرمی کیمپ منتقل کیا گیا جن میں زرینہ مری کی گمشدگی سر فہرست ہے. ڈاکٹر اللہ نذر کی اہلیہ. شہید اسلم بلوچ کیہمشیرہ کی گمشدگی بھی اسی کرپشن الائنس کی مرہون منت ہے.
یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ بلوچستان میں ظلم و جبر کا تسلسل بلوچستان کی آزادی تک جاری رہے گا کیونکہ دنیا کا ہرظالم اپنے قبضے کو برقرار رکھنے کے لئے ظلم و جبر کے پہاڑ توڑتا رہتا ہے تاکہ آزادی کے طالب سماج میں ایک خوف کے ماحول کوبرپا کرکے آزادی کی سوچ کو ہی معدوم کردیا جائے. لیکن آزادی کے جذبے سے سرشار عوام کی جدوجہد، ظلم و جبر کے حالات میںبھی اپنے جدوجہد کے تسلسل کو نہیں روکتا.
ریاست کی جانب سے ایک مرتبہ پھر بلوچستان میں بلوچ طالب علموں کی جبری گمشدگی کا لامتناہی سلسلہ شروع کردیا گیا ہے. بلوچ سیاسی طالب علم رہنما ڈاکٹر صبحیہ بلوچ کے بھائی اور کزن کو یونیورسٹی سے اغواء کیا گیا جن کی جبری گمشدگی دراصلسیاسی عمل پر قدغن لگانے کی سازش اور ڈاکٹر صبحیہ کو سیاست سے دستبردار کرنے کی سازش ہے.
بلوچ طالب علموں کی جانب سے شاہ میر زہری اور مرتضیٰ زہری کی جبری گمشدگی کے خلاف احتجاج کا سلسلہ بھی شروع کیا گیاہے.
لیکن ریاست کی طرف سے ایک مرتبہ پھر جبری گمشدگیوں میں تیزی لائی گئی ہے۔
گذشتہ روز بلوچستان یونیورسٹی کے طالب علم سہیل بلوچ اور فصیح بلوچ کو جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا، اور اسی تسلسل کوبرقرار رکھتے ہوئے مختلف علاقوں سے مذید طالب علم جبری گمشدگی کا شکار بنائے گئے جو ریاستی ظلم و جبر کی عکاسی اورنوجوان کے شعور سے خوف کی علامت ہے.
طالب علموں کی جبری گمشدگی کے خلاف احتجاج کا سلسلہ مختلف شہروں میں جاری ہے، سوشل میڈیا کمپئن بھی چلائی جاری ہےاور حال ہی میں جامعہ بلوچستان کے طالب علموں نے جامعہ کے کلاسز کے بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے، جو خوش آئند بات ہے. بلوچستانکے تمام اداروں کے طالب علم اپنے اداروں میں تعلیمی بائیکاٹ کا اعلان کرکے جبری گمشدگی کے شکار بلوچ طالب علموں سےیکجہتی کا اظہار کریں.
بلوچستان سے باہر تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم بلوچ طالب علم اگر بائیکاٹ کا فیصلہ نہیں کرسکتے تو اجتماعی بنیادوں پر فیصلہکرکے سخت سے سخت احتجاج کا اعلان کریں تاکہ بلوچ طالب علموں کی جبری گمشدگی کے خلاف ایک واضح موقف اپنا کر اداروںپر دباؤ ڈالیں.
بلوچستان کا مستقبل بلوچ طالب علموں سے وابستہ ہے اگر طالب علم زندانوں میں بند ہونگے تو ان در و دیوار کا کچھ فائدہ نہیں اسلیے اپنے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لئے طالب علموں کو سخت سے سخت فیصلے کرنے ہونگے.
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں