بی ایس او ایک مزاحمتی درسگاہ ہے، جس کی تاریخ قربانیوں سے بھری ہوئی ہے۔ چیئرمین خلیل بلوچ

333

بلوچ نیشنل موؤمنٹ کے چیئرمین خلیل بلوچ نے بی ایس او کے 54 ویں یوم تاسیس کی مناسبت سے بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ بی ایس او ایک مزاحمتی درسگاہ کا نام ہے جس نے بلوچ سماج میں نہ صرف علم و شعور کی روشنی پھیلایا بلکہ بلوچ سماج کو ایسے رہنما فراہم کیے جو آج مزاحمت کی علامت بنے ہیں اور بے لوث قربانیوں کی تاریخ نے تنظیم کو بلوچ سماج میں ایک قابل تکریم سیاسی حیثیت دلایا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کا قیام، اسکے اغراض و مقاصد اور جدوجہد نے نوجوانوں کو ایک ایسا پلیٹ فارم فراہم کیا جہاں وہ ریاستی بربریت اور نو آبادیاتی نظام کی تباہ کاریوں سے آگاہ ہوئے اور ان کے خلاف مزاحمت کی راہ اختیار کرلی۔ بی ایس او نے نوجوانوں میں یہ شعور پروان چڑھایا کہ مزاحمت ہی واحد راستہ ہے جس کے سایے تلے وہ قومی تشخص اور قومی بقاء کو محفوظ بناسکتے ہیں۔

چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا کہ نوجوانوں کی بی ایس او میں شمولیت اور عوام میں تنظیم کی مقبولیت نے ریاستی اداروں کو ہمیشہ خوف میں مبتلا کیا اور اسی خوف کی وجہ سے انہوں نے ہر دور میں تنظیم کو تقسیم کرنے کی سازش کی اور بدقسمتی سے ہر سازش میں وہ کامیاب نظر آئے لیکن بی ایس او کے مخلص اور مزاحمتی جذبے سے سرشار نوجوانوں نے تنظیم کی مزاحمتی حیثیت کو اپنے لہو سے زندہ رکھا اور آج بھی بی ایس او قربانیوں کے تسلسل کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔

انہوں نے کہا اکیسویں صدی کے آغاز میں بی ایس او نے پارلیمانی سیاست کو زہر قاتل قرار دیکر پارلیمانی سیاست کی پاکٹ آرگنائزیشن بننے کے بجائے آزادی پسند پارٹی سے ناطہ جوڑ لیا اور نوجوانوں کو پارلیمانی سیاست کا ایندھن بننے کے بجائے حقیقی مزاحمت کی راہ دکھا دی۔

چیئرمین خلیل بلوچ نے مزید کہا کہ بی ایس او بلوچ قومی نفسیات میں ایسے سرایت کرچکی ہے کہ ریاست کی تمام مشینری بھی بی ایس او کی محبت کو بلوچ عوام کے دلوں سے نہ نکال سکی۔ حالانکہ ریاست نے بلوچ سماج کو بانجھ بنانے اور بیگانگی کا شکار بنانے کے لئے جبری گمشدگی، حراستی قتل، مسخ لاشوں، اجتماعی قبریں اور اجتماعی سزا کے تسلسل کو جاری رکھا۔ لیکن علم و شعور سے لیس بلوچ طالب علم رہنماؤں نے تنظیم کی مزاحمتی حیثیت کو بحال رکھ کر سماج کو بانجھ پن سے دور رکھا۔ سینکڑوں کی تعداد میں جبری گمشدگی، درجنوں رہنماؤں کی شہادت نے بی ایس او کے آزادی کے جذبے کو ختم کرنے کے بجائے مزید پروان چڑھایا۔

انہوں نے اپنے بیان کے آخر میں کہا کہ مزاحمت ہی تنظیم کی اصل طاقت ہے اور یہی مزاحمت تنظیم کو سماج میں ایک ممتاز حیثیت دلاتی ہے۔

چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا موجودہ قیادت کو چاہئے کہ بی ایس او کے قیام کے اغراض و مقاصد، قربانیوں اور جدوجہد کے بارے میں آگاہی فراہم کریں اور ان موضوعات پر بحث و مباحثہ کریں کہ وہ کونسی وجوہات تھیں جس نے بی ایس او کو تقسیم کرنے میں سازگار ماحول پیدا کیا اور بلوچ طالب علموں کی طاقت کو تقسیم کیا۔ تنقیدی پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے بحث و مباحثہ ہی تنظیم کے لئے نئی راہوں کے انتخاب میں مدد فراہم کرسکتی ہے۔