بلوچ طلباء کی عدم بازیابی، بدھ کے روز بلوچستان کے تمام تعلیمی ادارے بند کریں گے – طلباء تنظیمیں

315

بلوچستان کے مرکزی شہر کوئٹہ میں بلوچستان یونیورسٹی کے احاطے میں طلباء ساتھیوں کی جبری گمشدگیوں کے خلاف طلباء تنظیموں کا احتجاج آج 14 ویں روز جاری رہا –

اس موقع پر بی ایس او کی مرکزی قیادت، پشتون ایس ایف اور بساک رہنماؤں نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ طلباء کی عدم بازیابی پر تشویش ہے۔ انہوں نے کہا کہ گذشتہ روز بلوچستان اسمبلی میں طلباء سے متعلق بحث پر حکومتی بے بسی قابل افسوس رہی ہیں۔

طلباء قیادت نے کہا کہ ہم گذشتہ 14 روز سے سراپا احتجاج ہیں لیکن کوئی شنوائی نہیں ہورہی ہے اور ہمارے احتجاج کو سنجیدہ نہیں لیا جارہا ہے -۔ انہوں نے کہا کہ ہم نہیں کہتے کہ ہم آئین سے مبرا ہیں لیکن وہ بھی اس آئین کی پاسداری کریں۔

طلباء تنظیموں نے حکومت کو 48 گھنٹوں کی الٹی میٹم دیتے ہوئے کہا کہ اگر طلباء کو بازیاب نہیں کیا گیا تو اگلے ہفتے پیر کے روز کوئٹہ کے تمام تعلیمی ادارے بند رہینگے جبکہ بدھ کو بلوچستان کے تمام تعلیمی ادارے بند ہونگے –

اس موقع پر پشتون ایس ایف کے نمائندے نے کہا کہ پشتون علاقوں میں بھی احتجاج کو وسعت دینگے اور طلباء تنظیموں کی اپیل پر وہاں بھی تمام کالج اور ادارے بند کرینگے –

طلباء قیادت نے کہا کہ اگر حکومت نے احتجاج میں رکاوٹیں ڈالنے کی کوشش کی تو کسی قسم کے اشتعال کا ذمہ دار حکومت ہوگی۔

خیال رہے کہ بلوچستان یونیورسٹی کے دونوں طالب علم سہیل بلوچ اور فصیح اللہ یکم نومبر کو بلوچستان یونیورسٹی سے لاپتہ ہو گئے تھے، جس کے بعد ان کے ساتھی طلبہ نے احتجاج شروع کر دیا۔ واقعے کےخلاف کوئٹہ کے دیگر تعلیمی اداروں میں بھی احتجاج کیا گیا۔

یونیورسٹی کے احاطے میں 14 دن سے دھرنا دینے والے طلبہ سے حکومتی پارلیمانی کمیٹی کے وفد میں شامل ارکان عبدالرحمٰن کھیتران، ملک نصیر شاہوانی اور احمد نواز نے ملاقاتیں کی۔ تاہم ابتک حکومت طلباء کو بازیاب کرنے میں کامیاب نہیں ہوا ہے –

حکومتی وفد نے طلبہ سے کہا ہے کہ انہیں مسئلے کے حل کے لیے کچھ دن دیے جائیں، جس پر طلبہ نے مشاورت کے بعد چار دن کا وقت دینے کا فیصلہ کیا