وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کیجانب بلوچستان سے جبری گمشدگیوں اور تعلمی اداروں پر چھاپوں کے خلاف کراچی پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا گیا –
مظاہرے میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے رہنماؤں، لاپتہ افراد کے لواحقین، طلباء اور سیاسی و سماجی تنظیموں کے ارکان نے شرکت کی –
مظاہرین نے بلوچستان سے رواں ماہ جبری گمشدگی کے شکار طلباء کے تصاویر ہاتھوں میں اٹھا رکھے تھے اور طلباء کی فوری بازیابی کا مطالبہ کیا ہے –
مظاہرین کا کہنا تھا کہ آئے روز بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے واقعات ہورہے ہیں سیکورٹی اداروں کی جانب سے تعلیمی اداروں پر چھاپے و طلباء کو اغواء کرنے کا واقعہ بھی ایک تسلسل سے جو جاری ہے –
مظاہرے میں موجود سماجی کارکن نغمہ شیخ کا کہنا تھا کے آئے دن کراچی پریس کلب کے سامنے آپ بلوچوں کو احتجاج کرتے ہوئے دیکھے گے لیکن اس کے برعکس یہاں ان نا انصافیوں کے خلاف حکومتی ادارے بلکل ناکام نظر آتے ہیں –
مظاہرین میں پنجگور سے گمشدگی کا شکار بلاول بلوچ کے لواحقین بھی شریک تھے جنہوں نے بلاول بلوچ کو منظر عام پر لانے اور انصاف فراہمی کا مطالبہ کیا۔
مظاہرین سے گفگتو کرتے ہوئے لاپتہ ڈاکٹر محمد بلوچ کی بیٹی اور وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے ڈپٹی جنرل سیکٹری سمی دین بلوچ کا کہنا تھا کہ دنیا میں نوجوان جب قلم اور کتاب اٹھاتے ہیں تو وہ اپنی تقدیر بلتے ہیں لیکن بلوچستان میں قلم اور کتاب اٹھانے والے تعلیمی اداروں سے لاپتہ کردیے جاتے ہیں –
سمی بلوچ کا کہنا تھا کہ کراچی پریس کلب کے سامنے اکثر اوقات لوگ جمع ہوکر زندگی کے سہولیات جیسے مسائل کے لئے احتجاج کرتے نظر آتے ہیں لیکن بلوچوں کا یہاں آنے اور مقصد بلوچستان میں جاری انسانی بحرانی و انسانی حقوق کی پامالی ہے ان مظالم پر احتجاج کرتے ہمیں اپنے اوپر ہونے والے دیگر مظالم پر آواز اٹھانے کا موقع ہی میسر نہیں –
مظاہرین یوتھ پروگریسو الائنس کے کارکنان بھی شریک تھے –
یوتھ پروگریسو الائنس کے ایک رہنماء نے مظاہرین سے گفگتو میں کہا کہ طلباء کو حراساں کرنا و تعلمی اداروں سے طلباء کو اغواء کرنا دراصل انہیں تعلیمی حصول سے محروم رکھنے کی سازش ہے جس کے خلاف آواز اٹھانا ہم سب کا فرض ہے –
مظاہرین نے بلوچستان سے جبری گمشدگی کا شکار طلباء عدنان مینگل، فصیح بلوچ ،سہیل بلوچ، زبیر زہری، اسلم بلوچ، بلاول زہری و دیگر جبری گمشدگی کا شکار طلباء کی بازیابی کا مطالبہ کیا ہے –